مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
اس عادت کا ماخذ ہے۔ اور دوسری جزئی اس کی یہ بھی ہے کہ اپنی دنیوی حاجت ان کے سامنے پیش نہیں کرتا مگر بقرینۂ مقارِنت استغناء جزئی اوّل اقرب ہے۔دوسری حدیث عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اَنَّ اَعْرَابِیًّا دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ قَالَ: اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ وَمُحَمَّدً اوَلَاتَرْحَمْ مَعَنَا اَحَدً ا،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ تَحَجَّرْتَ وَاسِعًا،ثُمَّ لَمْ یَلْبَثْ اَنْ بَالَ فِی الْمَسْجِدِ فَاَسْرَعَ اِلَیْہِ النَّاسُ فَنَھٰی رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: اِنَّمَا بُعِثْتُمْ (بضم ) مُیَسِّرِیْنَ وَلَمْ تُبْعَثُوْا مُعَسِّرِیْنَ صُبُّوْا عَلَیْہِ سِجْلًامِنْ مَّاءٍ اَوْ قَالَ ذَنُوْبًامِنْ مَّاءٍ اخرجہ الخمسۃ الا مسلما۔وہٰذالفظ ابی داؤد والترمذی ؎ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی مسجد میں آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے اور اس نے دو رکعت پڑھی پھر دعا کی کہ اے اللہ! مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم فرما اور (اس رحمت میں) ہم دونوں کے ساتھ کسی کو شریک مت کر (وہ یہ سمجھا کہ شاید رحمت محدود ہوگی اور اگر اور لوگ بھی شریک ہوں گے تو ہمارا حصہ گھٹ جائے گا) پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (بھلے مانس!) تو نے ایک غیر محدود چیز کو (بزعمِ خود) محدود کردیا ۔پھر زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ اس نے مسجد میں پیشاب کردیا۔ لوگ اس کی طرف (روکنے کے لیے) دوڑے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع فرمایا،اور ارشاد فرمایا کہ تم آسانی کرنے کو آئے ہو سختی کرنے نہیں آئے،اس پیشاب پر ایک ڈول پانی بہادو۔ روایت کیا اس کو بخاری و مالک و ابوداؤد وترمذی و نسائی نے تیسیر ص ۲۷۸ ب۔ فائدہ:خُلق، رفق بر اقوال و افعالِ جاہلاں اکثر بزرگوں کی عادت ہے کہ جہلا کی ------------------------------