مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
ہوجاتا ہے۔ اور راز اس میں یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی بصیرتِ خداد اد سے سمجھ جاتے ہیں کہ جس خیر کی ان کوتعلیم کی گئی ہے یہی توبہ عن الشر کے لیے رفتہ رفتہ کافی ہوجاوے گی۔ کبھی یہ سمجھتے ہیں کہ اگر زیادہ تشدد کیا جاوے گا یہ اس خیر سے بھی باز رہیں گے اور اصل اسلام یا عزمِ توبہ ہی سے متوحّش ہوجاویں گے تو یہ خیر ہوجاوے غنیمت ہے۔ کبھی معلوم ہوتا ہے کہ دفعتاً ترکِ معصیت پر قدرت ان کی ضعیف ہے۔ بتدریج اس کی استعداد پیدا ہوجائے گی۔ یہ حدیث بزرگوں کے اس طرزِ عمل کی واضح اصل ہے۔چوتھی حدیث عَنِ الْمِسْوَرِبْنِ مَخْرَمَۃَ حِیْنَ خَطَبَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بِنْتَ اَبِیْ جَہْلٍ قَالَ:سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ وَھُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ اَنَّ بَنِیْ ھِشَام ابْنَ الْمُغِیْرَۃِ اِسْتَاْذَ نُوْنِیْ اَنْ یَّنْکِحُوْااِبْنَتَہُمْ عَلٰی عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ فَلَا اٰذَنُ ثُمَّ لَا اٰذَنُ ثُمَّ لَا اٰذَنُ اِلَّا اَنْ یُّرِیْدَ ابْنُ اَبِیْ طَالِبٍ اَنْ یُّطَلِّقَ اِبْنَتِیْ وَیَنْکِحَ اِبْنَتَھٗ، وَاِنَّمَا ھِیَ بِضْعَۃٌ مِّنِّیْ ،یُرِیْبُنِیْ مَایُرِیْبُہَا وَیُؤْذِنِیْ مَا یُؤْذِیْھَا اَخْرَجَہُ الْخَمْسَۃُ اِلَّاالنَّسَائِیُّ؎ مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس واقعہ کے متعلق کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دختر ابوجہل کے نکاح کا پیغام دیا تھا روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے سنا کہ بنی ہشام بن مغیرہ مجھ سے اس کی اجازت لینا چاہتے تھے کہ اپنی دختر کا علی ابنِ ابی طالب سے نکاح کردیں سو میں کبھی اجازت نہ دوں گا پھر دوبارہ اور سہ بارہ کہتا ہوں کہ اجازت نہ دوں گا، ہاں! اگر ابنِ ابی طالب کو یہ منظور ہو کہ میری دختر کو طلاق دے دیں اور ان کی دختر سے نکاح کرلیں تو ایسا کریں۔ فاطمہ میرا لختِ جگر ہے، جس بات سے اس کو بے چینی ہوگی مجھ کو بھی ہوگی اور جس بات سے اس کو اذیت ہوگی مجھ کو بھی ہوگی۔ روایت کیا اس کو بخاری و مسلم و ابوداؤد و ترمذی نے۔ ------------------------------