مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
منت منہ کہ خدمتِ سلطاں ہمی کنیم منت شناس زو کہ بخدمت بد اشتند یہ احسان مت رکھ کہ میں سلطان کی خدمت کررہا ہوں بلکہ تو اپنے اوپر احسان سمجھ کہ سلطانِ حقیقی نے اپنے کرم سے تجھے اپنی خدمت میں قبول کر رکھا ہے۔حکایت ایک بزرگ کے شاگرد پاؤں دبارہے تھے، اسی درمیان اُن بزرگ نے ارشاد فرمایا کہ جو خدمت کرتا ہے اسے بھی ثواب ملتا ہے اور جو پاؤں دبوارہا ہے اسے بھی ثواب ملتا ہے۔اس شاگرد نے کہا: حضرت! ہم تو محنت کررہے ہیں ہمیں تو ثواب ملنا سمجھ میں آتا ہے لیکن آپ کو دبوانے کا ثواب کیوں ملے گا؟ آپ کو تو کوئی مشقت ہو نہیں رہی ہے۔ان بزرگ نے اپنے پاؤں سمیٹ لیے اور بیٹھ گئے اور فرمایا: اب آپ پاؤں دبانے کا ثواب حاصل کیجیے۔ ہم نے جو آپ کو ثواب کا موقع دیا یعنی خدمت کی اجازت دی اس کا ثواب ہم کو ملے گا ۔یہ حکایت احقر نے حضرت مولانا محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی دامت برکاتہم سے سُنی تھی۔ خلاصہ یہ کہ دینی خدّام کو وظیفہ اورتنخواہ کو اپنا معاوضہ نہ سمجھنا چاہیے۔ بلکہ تعلیمی یا وعظ وغیرہ کی خدمات کو اپنی سعادت اور اپنا فرضِ منصبی سمجھنا چاہیے اور وظیفہ کو حق تعالیٰ کا انعام سمجھنا چاہیے۔ صاحبو! دین ایسی قیمتی چیز ہے کہ اس کے لیے انبیاء علیہم السلام کے خون بہے ہیں۔ کتنے انبیاء علیہم السلام شہید کردیے گئے۔ اور جہاد میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے خون خدا کی راہ میں کس طرح قربان ہوئے۔ سوچئے تو سہی کہ سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا خون جو تمام کائنات سے افضل اور قیمتی ہے لیکن دین کی خدمت کے لیے حق تعالیٰ نے اسے بھی گوارا فرمایا۔ پھر ہم کو اور آپ کو اپنے خون اور پسینے اور جان اور مال اور آبرو خدا کی راہ میں دے کر کتنا خوش ہونا چاہیے ؎