مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
ایک عبادت کو دوسری عبادت کے واسطے اچھی طرح کررہا ہے، اس لیے ہر گز یہ ریا نہیں ہے۔ حدیث میں اس کے استحسان پر صاف دلالت ہے۔ اس نادان کو مدتوں یہ شبہ رہا کہ اکثر کسی کی فرمایش سے جو قرآن عمدہ طرح پڑھنے کی عادت ہے شاید یہ اچھا نہ ہو۔ الحمد للہ! کہ اس حدیث کا سرِدقیق جس کی ابھی تقریر کی گئی ہے، قلب میں فائض ہوایہ شبہ بالکل دفع ہوگیا۔ پھر اس حدیث سے اس کی اور تائید ہوگئی۔ اور حدیث میں زیادہ غور کرنے سے مقبلانِ الٰہی کی بڑی فضیلت معلوم ہوتی ہے، بلکہ ان کی طلبِ رضا مثل طلبِ رضائے حق تعالیٰ کے ہے جب کہ دونوں میں تعارض نہ ہو،اور راز اس میں یہی ہے کہ اس کی رضا کورضائے حق کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ پس مطلوب بالذات طلبِ رضائے حق ہی ہے۔ لِاَنَّ السَّعْیَ فِی الطَّرِیْقِ سَعْیٌ فِی الْوُصُوْلِ اِلَی الْمَقْصُوْدِساتویں حدیث عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ:لَقِیَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ابْنَ صَیَّادٍ فِیْ طَرِیْقِ الْمَدِیْنَۃِ فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:اَتَشْھَدُ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ، فَقَالَ ھُوَ اَتَشْھَدُ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ ،فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:اٰمَنْتُ بِاللہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ، مَاذَا تَرٰی، قَالَ:اَرٰی عَرْشًا عَلٰی الْبَحْرِ ،فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: تَرٰی عَرْشَ اِبْلِیْسٍ عَلَی الْبَحْرِرَواہُ مسلم؎ ابو سعیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابنِ صیَّاد سے(کہ من جملہ دجّالین کے ایک دجّال تھا) مدینہ کے کسی رستے میں ملے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:کیا تو میری رسالت کی شہادت دیتا ہے؟ تو وہ کہتا ہے کہ کیا آپ میری رسالت کی شہادت دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ پر اور اس کے سب فرشتوں پر اور اس کی سب کتابوں پر اور اس کے سب رسولوں ------------------------------