مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
ہر کجا پستی ست آب آنجا رود ہر کجا دردے شفا آنجا رود ۲۷) قاعدوں کی اور مسئلوں کی تقریر آپس میں اور استاد کے سامنے کرلیا کریں تاکہ قواعد محفوظ ہوں اور زبان میں گویائی آوے، ورنہ زبان سےمطلب کو ادا نہ کرسکے گا۔متفرق ۱) سوال وجواب میں مطابقت ہونا چاہیے۔ نہ جواب بڑھےنہ سائل کا سوال دہراوے ۔ نہ جواب میں سوال کے الفاظ آویں۔ بجز ان الفاظ کے جن سے تعرض ضروری ہے۔ ۲) جب نماز اکیلا پڑھے یا وہ نماز پڑھے جس میں آہستہ پڑھا جاتا ہے تو قرآنِ مجید کو بناکر پڑھے اور جیسی سورتیں پڑھنی مسنون ہیں ویسی سورتیں پڑھے، کیوں کہ اس کے خلاف میں تلاوت خدا کے لیے نہیں ہوتی بلکہ آدمیوں کے لیے ہوتی ہے۔ اس لیے کہ جب زور سے پڑھتا ہے تو بناکر پڑھتا ہے،اور آہستہ پڑھتا ہے تو بگاڑ کر پڑھتا ہے۔تو مدِّنظر آدمیوں کو سنانا ہوا۔ ۳) الفاظ انگریزی ہر گز استعمال نہ کرے، اس میں بو حُبِِّ دنیا کی پائی جاتی ہے۔ کہ دنیا نہ ملی تو دنیا داروں کے الفاظ ہی سے جی خوش کرلیں۔ او رلباس و پوشاک میں بھی یہی بات ہے۔اگر الفاظ بوجہ پسند ہونے کے کہنا ہے تو مسلمان آدمی کو الفاظ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک کے کیوں نہ پسند ہوئے جب سب زبانوں سے اچھی زبان ہے! بڑی غیرت کی بات ہے کہ جس کو ہم پیشوا مانیں ان کا نام نمازمیں التحیات میں درود میں لیں، اپنے کو ان کا جاں نثار کہیں اور لباس پوشاک اور بول چال ان کی نہ پسند کریں۔ ہاں !اگر مجبوری ہو کہ کوئی انگریزی دان عربی اردو الفاظ نہ سمجھے تو خیر اس کے سمجھانے کے لیے ڈکٹیشن وغیرہ بول دے تو مضایقہ نہیں۔ ۴) اگر اپناکہنا بیان کرنا ہو تو یوں کہے کہ میں نے عرض کیا تھا، اور اگر بڑے کا کہنا بیان کرنا ہو تو یوں کہے آپ نے فرمایا تھا۔