مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
اے مخاطب! تو نے دعویٰ کیا ہے کہ میں نے تکبر کے بُت کو توڑ دیا ہے لیکن تیرا دعویٰ یہ کہ میں نے بتِ پندار و تکبر توڑ دیا اس میں انانیت کا دعویٰ باقی ہے۔ دراصل اس حدیث میں جو قید مذکور ہے وہ قیدِ واقعی ہے احترازی نہیں، یعنی جو بھی ایسا کرتا ہے وہ تکبر ہی سے کرتا ہے۔اس کی ایک نظیر قرآنِ پاک میں ملاحظہ ہو۔ ارشاد ہے: وَلَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ خَشۡیَۃَ اِمۡلَاقٍ؎ مت قتل کرو اپنی اولاد کو تنگ دستی کے خوف سے۔ تو اگر اس حکم میں تنگ دستی کو سبب قرار دیں تو کیا اس کے معنیٰ یہ ہوسکتے ہیں کہ اگر تنگ دستی کا خوف نہ ہو تو قتلِ اولاد جائز ہوجائے؟ پس ظاہر ہے کہ اس آیت میں یہ قید واقعی ہے احترازی نہیں۔ پس مفہوم یہ ہوگا کہ اس زمانۂ جاہلیت میں قتلِ اولاد کا سبب خوفِ تنگدستی ہوا کرتا تھا۔ تم ایسا نہ کرو۔ ہم ان کو بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی۔ رزّاقِ حقیقی تو ہم ہیں۔ اسی طرح ٹخنہ ڈھانکنے کی ممانعت کی حدیث میں تکبر کی قید کا یہی مفہوم ہے کہ ایسا متکبر ہی کرتا ہے۔ ازرسالۂ نظام: حدیثِ پاک میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عذر کیا کہ میرا تہبند نیچے لٹک جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارا یہ عمل تمہارے عذر کے عیب سے زیادہ عیب دار ہے، اُونچا کرو۔دوسری روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت سے فرمایا کہ کیا تمہیں ہمارے طرز و طریقے سے رغبت نہیں ہے۔ (فتح الباری: ج:۱۰،کتاب اللباس) جو صاحبان پائجامہ کے نیچے بندھ جانے یا کھسک جانے یا عدمِ فخر و غیرہ کا عذر کردیتے ہیں ان کو انصاف سے اللہ تعالیٰ کا خوف پیشِ نظر رکھتے ہوئے خوب غور کرلینا چاہیے۔ بعض واقعی معذورین کے عذر کو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاحظہ فرمانے کے بعد قبول نہیں فرمایا اور اس فعل سے منع فرمادیا۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ ٹخنے سے نیچے جتنا حصہ پائجامہ کا لٹکا ہوگا وہ جہنم میں ہوگا۔ مَااَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ مِنَ الْاِزَارِ فِیْ النَّارِ؎ ایک اور روایت میں ------------------------------