مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
البتہ اگر توبہ کرلے تو پھر تاریکی صاف ہوجاتی ہے۔ توبہ سے گناہوں کے نقصان کی تلافی ہوجاتی ہے۔ ہر گناہ سے دل کا سکون چھن جاتا ہے۔ حدیثِ پاک میں ارشاد ہے کہ اے لوگو! اپنی صف کو درست کرلو ورنہ تمہاری صفوں کی کجی سے تمہارے دلوں میں کجی اور ٹیڑھا پن پیدا ہوجائے گا۔؎ تو ظاہر کا اثر باطن میں منتقل ہوا یا نہیں؟ ہم دین کے غریب اسی سبب سے ہیں کہ اعمالِ صالحہ کے ساتھ ساتھ گناہ کرکے جمع شدہ نور بھی ضایع کرتے رہتے ہیں اور اولیاء اللہ دین کے امیر اس لیے ہیں کہ ان کے پاس انوار جمع ہی ہوتے رہتے ہیں۔ گناہوں سے وہ محتاط رہتے ہیں۔ تقویٰ بڑی ہی نعمت و دولت اور برکت کی چیز ہے۔ ولایت کا مدار اسی پر ہے۔ قرآنِ پاک میں ولی کی تعریف متقی سے فرمائی گئی ہے۔ ان کے قلوب میں اسی سبب سے ہر وقت اطمینان اور سکون بھرا ہوتا ہے۔ حتّی کہ جو ان کے پاس بیٹھ جاتا ہے اسے بھی ان کے سکون کے عکس سے سکون محسوس ہونے لگتا ہے جیسے گرمی سے پریشان سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ جائے۔ اَلَا بِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ؎ ذکر اللہ سے دلوں کو سکون عطا ہوتا ہے۔ایک بہت بڑاتاجر ہمارے مدرسے کے اُستاد قاری امیرحسین سے جو حضرت شیخ الحدیث صاحب کے مُجاز بھی ہیں سکون کی تدبیر پوچھنے آیا تھا حالاں کہ ان کی تنخواہ اس وقت صرف سو روپے ماہوار تھی لیکن دولت سے سکون کا کیا تعلق البتہ ذکر کے خلاف سے بچنا بھی ضروری ہے یعنی معاصی سے احتیاط کے بغیر ذکر کا نفع کامل نہ ہوگا، جب ذکر کامل ہوگا اطمینان کامل ہوگا۔ ذکر ناقص ہوگااطمینان بھی ناقص ہوگا۔ ذکرِ کامل سے مراد یہی ہے کہ اس کی ضد سے بچا جائے۔ جیسے کامل گرمی جب حاصل ہوگی جب اس کی ضد سردی کے اسباب ------------------------------