مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
کوئی گناہ نہ چھوٹ رہا ہو تو سمجھ لو کہ دل کی بیٹری ڈاؤن ہوگئی کسی اللہ والے کے پاس جاکر بیٹری چارج کرالے۔ حضرت حکیم الاُمت کا ارشاد ہے کہ اہل اللہ کی صحبت کو میں فرضِ عین قرار دیتا ہوں،کیوں کہ اصلاحِ نفس بدون صحبتِ اہل اللہ کے عادتًا محال ہے،اور جب اصلاحِ نفس فرض ہے تو مقدمہ فرض کا بھی فرض ہوتا ہے،بھلا فرض کا موقوف علیہ کیوں کر فرض نہ ہوگا! ۱۰۳)ارشاد فرمایا کہ ہمارا نام طالب العلم والعمل تھا مگر اختصار کے لیے صرف طالبِ علم بولا جاتا ہے، لیکن ہم عمل کو اب مقصود ہی نہیں سمجھتے۔طالبِ علمی ہی سے اعمال میں مشغول ہونے کا اہتمام اہلِ مدارس کو کرنا چاہیے۔ آج اساتذہ طلباء کی تربیت اور اصلاحِ نفس کی فکر نہیں کرتے صرف ان کی رہایش اورروٹیوں کی فکر ہوتی ہے۔ پس صورت تو طالبِ علم کی ہے اور رُوح اور حقیقت غائب یعنی تعلق مع اللہ اور خشیت اور اساتذہ کا ادب و اکرام سب ختم۔ پھر اسٹرائیک اور بغاوت نہ ہوگی تو کیا ہوگا!’’ہرچہ برماست از ماست‘‘ ہر کوتاہی اور معصیت کا ردِّعمل ہوتاہے۔ طلباء ہماری کھیتی ہیں، ہم ان کے قلوب میں اگر محبت اور تعلق مع اللہ اور خشیت اور اتباعِ سنت کے درخت نہ لگائیں گے تو دوسرے صحرائی خاردار درخت نکلیں گے پھر رونا پڑتا ہے کہ آج فلاں طالبِ علم نے فلاں اُستاد کو گالی دے دی۔ فلاں نے فلاں کی پٹائی کردی ۔آہ! ان طلبائے کرام کو تو سو فیصد اولیائے کرام ہونا چاہیے تھا۔اور جو بے عمل اور بے اُصول طلباء ہوں انہیں فوراً نکال دینا چاہیے تھا۔ درخت کی جو شاخ خراب ہو باغبا ن کی ڈیوٹی اور ذمہ داری ہے کہ اسے کاٹ کر پھینک دے۔ مقصود نہ طلباء کی تعداد ہے نہ عمارت ہے۔ کام کے اگر چند بھی نکلیں گے تو غلغلہ مچادیں گے۔ ۱۰۴)ارشاد فرمایا کہ حضرت مولانا یوسف صاحب بنّوری دامت برکاتہم نے حضرت حکیم الاُمت مولانا تھانوی رحمۃاللہ علیہ کا ایک عجیب ارشاد نقل فرمایا۔وہ یہ کہ بعض اہلِ ظاہر کو یہ اشکال ہوا کہ دُعا میں اللہ والوں کا واسطہ دینا جائز ہے یا