مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
اسٹیم قلب میں پیدا ہوجاتی ہے جو لغو باتوں سے ضایع ہوجاتی ہے۔ اسی لیے خشوع کے ذکر کے بعد ہی لغو باتوں سے اعراض اور حفاظت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ۔؎ علاّمہ امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ کوئی نیک کام مثلاً تلاوت یا نفل نماز یا ذکر کرو تو قلب میں محسوس کرو کہ کوئی تبدیلی آئی یا نہیں، اگر کچھ محسوس نہ ہوا تو دل بیمار ہے جیسے زکام میں ناک کو خوشبو کا پتا نہیں چلتا۔ معمولی خوشبو تو محسوس ہو اور نورِ حق قلب میں محسوس نہ ہو یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اور اگر قلب میں نور محسوس ہوا تو پھر اس کے بعد اگر کوئی لغو اور فضول کام کرے گا تو فوراً محسوس کرے گا کہ وہ نور قلب سے نکل گیا۔ مباح کی سرحد ایک طرف مستحب سے ملی ہے ایک طرف معصیت سے۔ جب لغو کا یہ اثر ہے تو معصیت کا کیا اثر ہوگا۔ لغو کہتے ہیں ہر غیر مفید بات کو وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَحضرت شیخ الحدیث صاحب دامت برکاتہم کے یہاں رمضان میں بارہ سو مہمان تھے، سب سے فرمایا: کھاؤ اور خوب سوؤ صرف ایک احتیاط کا حکم دیتا ہوں، وہ یہ کہ گفتگو مت کرو۔ جو گفتگو کرتا ملے گا نکال دیا جائے گا۔ تو بات یہی ہے کہ اکابر کی نگاہ اس نور کی حفاظت پر ہوتی ہے جو طاعات سے پیدا ہوتا ہے۔ پانی کی ٹنکی بھری ہوئی ہو اور نیچے ٹونٹی بھی کھول دو ٹنکی خالی ہوجائے گی۔ اسی طرح دل نورِ طاعت سے بھرا ہو لیکن لغو باتوں سے ضایع ہوجائے گا۔ ایک حصولِ نور ہے پھر اس کی بقا بھی تو مقصود ہے۔ نماز میں خشوع (خشوع کا طریقہ ملفوظ156 میں ملاحظہ فرمائیے) سے نور کا حصول ہوا۔ لغو سے احتیاط کا حکم اس کے بقا کے لیے ہے۔ اور لغو سے بچنے کی تدبیر یہ ہے کہ ضرورت سے بولے اور بولنے کے بعد پھر سوچے کتنا ٹھیک بولا اور کتنا زائد بولا۔ ہر نماز کے بعد اس کا محاسبہ کرے اور استغفار کرتا رہے۔ ۱۰۲) ارشاد فرمایا کہ ایک صاحب نے احقر سے سوال کیا کہ فلاں جگہ ایک ------------------------------