مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
سلیم اللہ خان صاحب مدظلہٗ نے واقعۂ مذکورہ سن کر احقر سے کان میں فرمایا کہ بھائی! یہ تو بڑے ہی عزیمت والے بزرگ ہیں۔ ۹۲) ارشاد فرمایا کہ بھائی! وعظ تو ختم ہوگیا۔ اب رہ گیا مسئلہ مصافحہ کا، تو مصافحہ مستحب اور سنت اور ایذائے مسلم حرام، پس اگر کسی نے دھکادیا کسی کو تو میں کسی سے بھی مصافحہ نہ کروں گا۔ قطار بنالیجیے داہنی طرف سے آکر مصافحہ کرکے بائیں طرف سے نکلتے جائیے۔ بچوں کو مقدم کیجیے پھر بوڑھوں کو مقدم کیجیے اور دیر ہونے سے نہ گھبرائیے چند منٹ کی تاخیر ہوگی اور اعتکاف کی نیت سے اس تاخیر میں ثواب بھی ہوگا۔ عرض مرتب: اس ادارے کے ایک عالم حافظ اُستاد نے احقرسے کہا کہ یہ منظر دیکھ کر اب عوام کو معلوم ہوگا کہ مولوی حکومت کرنا بھی جانتا ہے۔ ۹۳)ارشاد فرمایا کہ میں جب کسی دینی درسگاہ کے معاینے کے لیے حاضر ہوتا ہوں اور وہاں کچھ گزارش کرنی ہوتی ہے تو تما م بچوں کو اپنے پاس بٹھاتا ہوں کیوں کہ میں خود چھوٹا ہوں مجھے چھوٹوں سے مناسبت ہے۔ اور بچوں کو دو حصوں میں تقسیم کردیتا ہوں، مثلاً پچاس بچے ہیں تو پچیس بچوں کو اپنے داہنے منبر کے پاس تین تین کی صف لگاکر بٹھادیتا ہوں اسی طرح پچیس کو بائیں طرف۔ اور اس میں قدوار بٹھاتا ہوں۔طویل قد والوں کو پیچھے بٹھاتا ہوں۔ اس کے بعد جملہ بالغین سامعین کو ان کے پیچھے بٹھاتا ہوں۔ اس میں دو بڑی مصلحت ہوتی ہیں: ۱) پیچھے چھوٹے بچے جو شرارت یا بات چیت کرتے ہیں وہ سب ختم۔ ۲) دوسرے یہ کہ ان کو مقرّر کو دیکھنے کے لیے اُچکنا نہیں پڑتا۔ اور اپنے یہاں مسجد میں ایک چھوٹی چوکی رکھی ہوئی ہے کیوں کہ منبر پر اکثر بیٹھنے میں تکلیف ہوتی ہے چوکی پر بے تکلّف آرام سے بیٹھ کر وعظ کہنے میں راحت رہتی ہے۔ ۹۴)ارشاد فرمایا کہ آج عام طور پر بعض صلحاء کے یہاں بھی اس کا اہتمام نہیں کہ کھانا مہمانوں کے بیٹھنے سے قبل دستر خوان پر نہ رکھیں۔ اس طور پر کھانا