مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
اکرام کے خلاف ہے۔ بعض حضرات نے کہا کہ یہاں یہی رواج ہے اور ہمارے یہاں اس کو بے ادبی نہیں سمجھتے۔ عرض کیا گیا کہ اگر دونوں جگہوں میں کوئی فرق نہ تھا تو مجھے گدّوں پر بیٹھنے کے لیے کیوں اصرار فرمایا گیا ؟حضرت حکیم الاُمت رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے کھانے کو چار پائی پر ہمیشہ سرہانے رکھ کر اور خود پائنتی بیٹھ کر کھایا ہے۔ کبھی یاد نہیں آتا اس کے خلاف کیا ہو۔ احقر مرتب عرض کرتا ہے کہ اس نوع کی دعوت میں احقر بھی ایک دفعہ شریک تھا۔ اس مجمع میں ہندو پاک کے متعدد علماء بھی تھے۔حضرتِ اقدس کی اس عزیمت اور جرأت کے ساتھ اس مجمع میں دیر تک ارشادات سُن کر ایک مفسر عالم پاکستان کے دریافت کرنے لگے یہ کون صاحب ہیں؟ حق تعالیٰ نے حضرتِ اقدس کو منکرات پر روک ٹوک کا ایک رفیع مقام اور اس کے لیے ایک جری اور عالی حوصلہ قلب بخشا ہے۔ ابھی حالیہ سفرِکراچی کے مواعظ اور اصلاحِ منکرات کے سلسلے میں ایک اُستادِ حدیث اور نائب مفتی دارالعلوم حضرت مولانا عاشق الٰہی صاحب مدظلہٗ نے احقر سے فرمایا کہ بھائی! حضرت مولانا ابرارالحق صاحب پر تو ایسا حال اصلاحِ اُمت کا غالب ہے جیسا کہ ہم نے مولانا اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں پڑھا ہے۔ ۹۱) ارشاد فرمایا کہ ایک بار وقت کم تھا ایک صاحب اصرار کررہے تھے کہ ناشتہ کرلیجیے۔ احقر نے کہا: اچھا صرف چائے پلادیجیے۔ اب دستر خوان پر تمام تکلّفات اور انواع و اقسام کی اشیاء موجود، احقر نے صرف چائے پی اور فوراً جہاں کا نظم سفر تھا اُٹھ کھڑا ہوا اور سواری پر بیٹھ گیا۔ اب اگر میں کچھ اور بھی چیزیں کھالیتا تو میزبان کے قلب پر کیا اثر ہوتا؟ یہی کہ ارے بھائی! یہ مولانا لوگ نے صرف چائے کو محض زبان سے کہا تھا اور کھا گئے سب۔ چھوڑا کچھ بھی نہیں۔ علماء کا وقار ان ہی وجوہات سے عوام میں گرتا چلا جارہا ہے۔ میرے اس عمل سے محوِ حیرت ہوگئے۔ احقر مرتب عرض کرتا ہے کہ یہ بات حضرت والا نے ایک مدرسہ جامعہ فاروقیہ کے معاینے کے وقت فرمائی تھی۔ اس ادارے کے مہتمم اور شیخ الحدیث حضرت مولانا