مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
اسی طرح اُردو کا ایک جملہ ہے ’’رو کو مت جانے دو‘‘۔ اب اس جملے کا مطلب بولنے والے کے لب و لہجے سے سمجھ میں آئے گا۔ اگر اس نے رو کو پرو قف کیا اور پھر کہا مت جانے دو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ روک لو۔ اور اگر روکو مت پر وقف کیا اور جانے دو پھر کہا تو مطلب یہ ہوگا کہ جانے دو۔ تو حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے سامنے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا لب و لہجہ بھی تھا۔ اب افسوس کہ عقل اور لغت کے غلام احادیثِ پاک کا مفہوم سمجھنے میں حضرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی ضرورت نہ سمجھنے سے خود بھی گمراہ ہورہے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کررہے ہیں۔ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف رُجوع کرنا اپنی جدّت پسندی کی توہین سمجھتے ہیں حالاں کہ ہر پُرانی چیز خراب نہیں ہوتی ؎ پُرانے چاولوں کو پا نہیں سکتے نئے چاول پکالو اُن سے خشکہ پک نہیں سکتی ہے بریانی ۷۹)ارشاد فرمایاکہنیکیاں بُرائیوں کو مٹادیتی ہیں اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ؎ لیکن اس سے مراد یہ ہے کہ صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ کبائر مراد نہیں۔ ۸۰) ارشاد فرمایا کہ اگر پولیس افسر کا بیٹا پٹ رہا ہے تو لوگ کیا سمجھیں گے یا تو پولیس افسر کو خبر نہیں یا لوگوں کو نہیں معلوم کہ یہ پولیس افسر کا بیٹا ہے یا پولیس افسر اس بیٹے سے ناراض ہے جو اس کی ہمدردی نہیں کرتا۔ آج اُمّتِ مسلمہ کا یہی حال ہے جو نصرت نہیں ہورہی ہے۔ ہم نے اللہ پاک کو ناراض کر رکھا ہے۔ گناہوں کا عموم ہے اور روک ٹوک سے بھی ہم غافل ہیں۔ بنی اسرائیل کی ایک بستی پر عذاب کا حکم آیا تھا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا: ایک صوفی عابد بھی اس بستی میں رہتا ہے۔ جس نے آپ کی کبھی نافرمانی نہیں کی اِنَّ فِیْھَا عَبْدَکَ فُلَانًالَمْ یَعْصِکَ طَرْفًاقَطُّارشاد ہوا اس بستی کو پہلے اس پر پھر تمام ------------------------------