مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
کلمات کہہ کر اذیت دیتے ہیں اور اگر غصہ بہت بڑھا تو ہاتھ چلانا بھی شروع کردیا اس لیے اوّل زبان کا ذکر ہے ثانیاً ہاتھ کا ذکر۔ اور جب یہ اعضا زبا ن اور ہاتھ جو غصے کے وقت کثرت سے استعمال ہوا کرتے ہیں ایذا سے محفوظ ہوگئے تو سر اور پاؤں تو بہت ہی کم استعمال ہوتے ہیں وہ تو بدرجۂ اولیٰ محفوظ ہوہی جاویں گے۔ یعنی مشکل سوال میں جب پاس ہوگیا تو آسان سوال میں تو پاس ہو ہی جاوے گا۔ ۷۸) ارشاد فرمایا کہ بعض لوگ قرآن و حدیث کو اپنی رائے سے سمجھتے ہیں یہ غلط ہے۔ ہر کلام کے مختلف پہلو ہوتے ہیں جو صرف لغت سے معلوم نہیں ہوتے مثلاً ایک شاعر کا قول ہے ؎ خَاطَ لِیْ عَمْرٌ و قُبَاءً لَیْتَ عَیْنَیْہِ سَوَاءً عمرو نے میرے واسطے قُبا سِی، اے کاش! اس کی دونوں آنکھیں برابر ہوجاویں۔ اور عمروکا نا تھا صرف ایک آنکھ صحیح تھی۔ اب اس شعر کے دو معنیٰ ہیں: اگر شاعر نے خوش ہوکر کہا تو ترجمہ یہ ہوگا کہ کاش! اس کی خراب والی آنکھ بھی اچھی ہوجائے۔ اور اگر غصے میں تھا، ناراض تھا تو ترجمہ یہ ہوا کہ دوسری آنکھ جو تندرست ہے وہ بھی خراب ہوجائے۔ اب آپ بتلائیے کہ یہاں ایک معنیٰ متعین کرنے کے لیے کیا عقل یا لغت کافی ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ اب شاعر کے دوستوں کو تلاش کرنا پڑے گا کہ جب اس نے یہ شعر کہا تھا تو اس کے چہرے کا کیا رنگ تھا؟ غضب طاری تھا یا خوشی طاری تھی؟ یہ تو ایک شاعر کے کلام کا حال ہے۔ اسی طرح رسولِ ربّ العالمین کے کلام کو سمجھنے کے لیے آپ کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی ہمیں ضرورت اور احتیاج ہوگی ، جو انہوں نے سمجھا ہوگا وہی صحیح ہوگا،کیوں کہ ان کے سامنے صاحبِ کلام صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ انور بھی ہوتا تھا اور تمام سیاق و سباق سامنے ہوتا تھا۔ جس طرح ایک شاعر کے کلام کے معنیٰ کو متعین کرنے کے لیے نہ عقل کافی ہے نہ لغت کافی اسی طرح حدیثِ پاک کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے بھی عقل و لغت کافی نہیں۔