مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
ارشاد فرمایا کہ اب نئی دوکانوں پر قرآن خوانی کا رواج شروع ہوگیا ہے۔ یہ سب رسم ہے قابلِ اصلاح ہے۔بعض لوگ اسی قرآن خوانی کی رسم کے ساتھ کسی بزرگ کا بیان اور دعوت بھی شامل کرلیتے ہیں یہ بزرگوں کودھوکا دینا ہے۔بمبئی میں اسی طرح حضرت قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو ایک صاحب نے وعظ اور دعوت کا پیغام دیا اور ان کے یہاں قرآن خوانی بھی تھی اس کو ظاہرنہ کیا،ان کا مقصد تھا کہ ادھر قرآن خوانی ختم ہو ادھر بیان بھی کرادیا۔ مجھے پتا چل گیا، میں نے حضرت کو اطلاع دی توپھر حضرت نے اس سے قرآن خوانی کا سلسلہ ختم کرایا صرف بیان رکھا گیا۔ پس صرف بیان ہو تو شرکت کرے ورنہ عذر کردے۔ ورنہ یہ رسومات جڑ پکڑلیتی ہیں۔کیا قرآن شریف دوکانوں کی افتتاح کے لیے نازل ہوا ہے اور یہ مشایخ اسی کام کے لیے رہ گئے؟برکت کے لیے صرف دو رکعت صلوٰۃِ حاجت پڑھ کر دُعا کرکے شروع کردے۔ بدون اشتہار اور ازدحام و اجتماع کے اہتمام کے کسی بزرگ کو لے جاوے اور اُن سے درخواست پیش کردے وہ دو رکعتِ حاجت پڑھ کر دُعا کردیں بس سنت کے موافق کام ہوگیا۔ ارشاد فرمایاکہ دینی احباب کو ہر ماہ کسی جگہ جمع ہوناچاہیے اور اپنا اپنا کھانا لے جانا چاہیے اوروہاں ساتھ مل کر کھانا کھائیں اور کھانے پینے کی سنت کا مذاکرہ کریں اور تصحیحِ قرآنِ پاک کا اہتمام کریں اور نماز کو سنت کے موافق پڑھنا سیکھیں اور ان حضرات کی رجسٹر حاضری بھی ہو۔ ارشاد فرمایاکہ وعظ کے بعد مصافحہ کیا جاتا ہے لہٰذا جب وعظ کہے تو بیان کردے کہ یہ مصافحہ نہ نماز کا ہےنہ وعظ کا ہے کہ یہ دونوں بدعت ہیں،یہ مصافحہ صرف ملاقات کا ہے جو اس وقت ہم لوگ کررہے ہیں، اور یہی مسنون ہے۔ ارشاد فرمایا کہ استاد کا تقرر کرے تو یہ معاہدہ کرے کہ مالیات میں گنجایش ہوگی تنخواہ دیں گے ورنہ صبر کرنا ہوگا ؎ کیا نتیجہ ہوگا کیوں کر ہوگا یہ اوہام چھوڑ کا م کر اور جس کا ہےکام اس پہ تو انجام چھوڑ