مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
زیادہ رکھا جاتا ہے تو پھر ضعف محسوس ہوتا ہے چناں چہ رمضا ن شریف کے ابتدامیں شہوت کے اندر اضافہ محسوس ہوتا ہے لیکن آخری روزے میں کمزوری محسوس ہوتی ہے۔ پس اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ عَلٰیلزوم کے لیے آتا ہے۔ اور لزوم کی دو قسمیں ہیں:لزومِ اعتقادی،لزومِ عملی اور یہاں مراد لزومِ عملی ہے جس کے لیے تکرار لازم ہےاور تکرار کے لیے تکثیر لازم ہے۔حدیث سمجھنے کے لیے فہم کی ضرورت ہے۔ خالی الفاظ سے کلام کی حقیقت منکشف نہیں ہوتی۔کبھی کلام مطلق بولا جاتا ہے اور مراد مقید ہوتا ہے۔ جیسے کوئی صبح کسی سے کہے کہ مجھے ایک سیر گوشت لائیےاور پکا ہوا لائیے تو مراد یہاں مقید ہے یعنی گوشت کچّالاؤ،اور اگر دوپہر کو کھانے کے لیے کسی نے منگوایا کہ جاؤ گوشت خرید کر لاؤ تو کلام مطلق ہے مگر مراد مقید ہے یعنی پکا ہوا لاؤ۔ یہ سب قرینہ مقام سے سمجھا جاتا ہے جس کے لیے فہم کی ضرورت ہے۔ ایک حدیث میں وارد ہے کہ ایک شخص کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ حالتِ روزہ میں بوسہ نہ لینا، دوسرا شخص آیا اس کو اجازت دی۔ جب یہ حدیث تابعین نے پڑھی تو اشکال کیا ۔صحابۂ کرام نے جواب دیا کہ جس کو منع کیا وہ سائل جوان تھا اور جس کو اجازت دی وہ بوڑھا شخص تھا ۔حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بوڑھے سے مراد بوڑھے کی حقیقت ہے اور جوان سے مراد جوان کی حقیقت ہے ۔ پس اگر کوئی جوان بیماری سے کمزور مثل بوڑھے کے ہوگیا ہے تو اس کا حکم بوڑھے کا ہوگا اور کوئی بوڑھا مقویات کھاکر قوی ہورہا ہے تو اس پر حکم جوان کا ہوگا۔ ارشاد فرمایا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو خلیفۂ وقت نے کہا کہ ہم آپ کو قاضی بنائیں گے۔فرمایا: ہم ہر گز قاضی بننے کے اہل نہیں۔کہا: آپ اہل ہیں۔ فرمایا: اگر میں سچا ہوں تو عذر قبول ہونا چاہیے اور اگر میں جھوٹا ہوں تو عہد ۂ قضا کا اہل نہیں۔ اس نے قسم کھائی کہ میں ضرور آپ کو قاضی بناؤں گا۔ آپ نے بھی قسم کھائی ہر گز نہ بنوں گا۔ کسی نے کہا کہ آپ خلیفہ کے مقابلے میں قسم کھاتے ہیں! آپ نے فرمایا کہ خلیفہ کو قسم کا کفّارہ ادا کرنا مجھ سے زیادہ آسان ہے۔