مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
اطاعت ہو تو نجات کے لیے کافی ہے۔ حدیث میں جو ارشاد ہے کہ تم میں سے کوئی مؤمن کامل نہ ہوگا حتیٰ کہ میں اس کی جان سے اور اس کی اولاد سے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوں ؎ یہاں بھی محبت ِعقلی مراد ہے۔ ارشادفرمایاکہ ایک صاحب نے کسی تقریب میں شرکت کے بعد اظہار ِ افسوس کیا کہ ناحق گیا۔ وہاں تو گانا باجا تھا، ریکارڈنگ تھی ۔میں نے کہا: اگر وہاں مکھی کی چٹنی کھلائی جاتی تو آپ نہ کھاتے اور اٹھ کر چلے آتے، طبعی کراہت پر عمل جس طرح کیا جاتا ہے شریعت کے احکام میں اسی طرح ہمّت کرنی چاہیے۔ منکرِ شرعی کیا منکرِ حسّی سے کم ہے؟ یہ تو زیادہ مضر ہے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق کی کمی ہے ورنہ معمولی گناہ کی بھی ہمّت نہ ہوتی ؎ بر دلِ سالک ہزاراں غم بُوَد گر ز باغِ دل خلالے کم بُوَد سالک کے دل پر ہزاروں غم ٹوٹ پڑتے ہیں جب اس کے دل کے باغ میں کسی کوتاہی کے سبب قربِ حق میں کمی محسوس ہوتی ہے۔ ارشاد فرمایاکہ اگر کوئی دوکاندار بورڈ لگاوے کہ یہاں ایک دام ہے اور سختی سے اس پر عمل کرے اور ایک پیسے کی بھی رعایت نہ کرے تو اس کی سب لو گ تعریف کرتے ہیں کہ بڑا با اُصول ہے، اس کو کوئی متشدّد نہیں کہتا، اور دین کے اُصول پر عمل کرنے والوں کو تشدّد و سختی کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ارشاد فرمایاکہ بعض لوگ کہتے ہیں فلاں اہلِ علم تو یہ کام نا مناسب اور غلط کام کرتے رہتےہیں۔ تو یہ کچی صراحی ہیں۔مٹی کی کچی صراحی پانی سے پگھل جاتی ہے، اگر یہ پختہ ہوجاتی تو پانی سے متأثر ہونے کے بجائے خود پانی کو متأثر کردیتی یعنی پانی کو ٹھنڈا کردیتی۔اسی طرح جو اہلِ علم حضرات اللہ والوں کی صحبت میں پختہ ہوجاتے ہیں وہ ہر ماحول میں دین کے اندر پختہ اور غالب رہتے ہیں اور بجائے خود متأثر ہونے کے دوسروں کو متأثر کردیتے ہیں،اور جو خام اہل ِعلم ہیں وہ جہاں جاہ اور مال کا مسئلہ آیا وہیں گڑ بڑ ہوجاتے ہیں۔ ------------------------------