مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
کو مقدّم بیان فرماکر اس کی زیادہ اہمیت بیان فرمائی ہے۔ جنگِ اُحد میں صرف ظاہری کوتاہی تو ہوئی تھی جیتی ہوئی جنگ شکست میں تبدیل ہوگئی۔ عقیدہ اور باطن بالکل ٹھیک تھا۔ اس کی وضاحت کے لیے چند مثالیں پیش کرتا ہوں: کبوتر کس قدر بلند پرواز ہے، اس کے پروں کو کاٹ دیجیے صرف ظاہری کمی تو ہوئی ہے باطن بالکل ٹھیک ہے مگر اب اس کی پرواز اور ترقی بھی ختم ،اور ترقی تو کیا ہوتی اس کا باطن بھی خطرے میں پڑجائے گا۔ اب ایک بلی کا بچہ بھی اسے پکڑ کر کھا جائے گا۔ تو معلوم ہوا کہ بعض ظاہر اپنے باطن کا محافظ بھی ہوتا ہے۔ آج مسلمانوں نے داڑھی کٹاکر اپنے ظاہر کو خراب کردیا، ان کی ہیبت نکل گئی۔ ہر جگہ کافروں سے پٹ رہے ہیں۔ دوسری مثال لیجیے: ہوائی جہاز کھڑا ہے، اُڑ نہیں رہا ہے، لیٹ ہورہا ہے، مدینہ جانے والے مسافر بھی لیٹ ہورہے ہیں، معلوم ہوا کہ ٹائر میں پنکچر ہے، ظاہرہی تو خراب ہے۔مگر بعض ظاہر جب خراب ہوتا ہے تو نہ خود ترقی کرسکتا ہے نہ دوسروں کی ترقی کا سبب بن سکتا ہے، نہ خود اُڑ سکتا ہے نہ حاجیوں کو مدینہ پہنچاسکتا ہے۔ آج مسلمانوں کا حال یہی ہے، ظاہری وضع قطع کی نافرمانی کرکے نہ خود ترقی کرسکتے ہیں نہ دوسروں کی ترقی کے سبب بن سکتے ہیں۔ ورنہ مسلمان کی شان تو یہ تھی ؎ تو نہیں ہے اس جہاں میں منہ چھپانے کے لیے تو ہے دنیا بھر کے سوتوں کو جگانے کے لیے وعدۂ غلبہ ہے مؤمن کے لیے قرآن میں پھر جو تو غالب نہیں کچھ ہے کسر ایمان میں اچھا! کبوتر کے پروں کو کاٹ کر ہنس یا مور کے پر لگادو، کیا ہوگا! بلی نہیں چھوڑے گی۔ اس طرح اگر اسلامی پروں کو کاٹ کر غیر مسلمین کے لگاؤ گے تباہ ہوجاؤ گے۔ سکھوں نے ہمارے صالحین کی صرف ظاہری نقل کی ہم اُن کے بھنگیوں کو بھی سردار کہتے ہیں اور ہم اپنے ظاہر کو خراب کرکے سرِ دار ہورہے ہیں۔ ہر عمل کے لیے ایک ڈیوٹی ہوتی ہے ایک ہیئتِ ڈیوٹی ہوتی ہے۔ ایک پولیس مین