مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
محجوب نہ ہو، بے خوف اور بے تکلف اپنے معمولات کو انجام دیتا ہے تو یہ شحص غالب ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو مغلوب ہے ۔مغلوب آدمی جب نامناسب اختلاط کرے گا تو اس کے نامناسب اثرات کو آہستہ آہستہ قبول کرے گا اور اس کے سب معمولات بالائے طاق ہوجاویں گے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر سردی ہے اور نمونیہ بھی ہے تو پہاڑ پر نہ جاوے اور اگر قوی اور تندرست ہے تو پہاڑ پر جاسکتا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ عرصے کی بات ہے کہ امریکا کی فوج گیارہ لاکھ تھی اس میں کسی کی داڑھی نہ تھی، ایک سکھ اسی گیارہ لاکھ امریکن فوج میں بھرتی ہوا اور صدر امریکا سے اس کی اجازت حاصل کی اور اس نے داڑھی نہ منڈائی۔ یہ ہم مسلمانوں کے لیے عبرت کی بات ہے۔ ارشاد فرمایا کہ صرف نظامِ سنت مقصود ہوتا ہے غیر نظامِ سنت کو درجۂ مقصودیت دینا بدعت ہے۔ غیر نظامِ سنت کو صرف مُعِین نظامِ سنت کا بنایا جاسکتا ہے نہ کہ اس کو مقصودیت کا درجہ دےدے۔ پس اگر کوئی شخص دوسرا طریقہ اختیار کرتا ہے اور نظامِ سنت کے لیے اس کو مُعِین اور نافع پاتا ہے تو اس کو فریق نہ بنائے بلکہ رفیق سمجھے۔ پس تعلیم، تبلیغ، تزکیہ سب مقصود اور ضروری ہے مگر کسی خاص نظام کو اتنی اہمیت نہ دے کہ مُعِین مقصود بن جاوے۔ ارشاد فرمایا کہ ایک صاحب کو ذکر سے نفع نہ ہورہا تھا، عُجب اور تکبر کی بیماری میں مبتلا ہوگئے تھے ۔شیخ نے سمجھ لیا۔علاج تجویز کیا کہ اخروٹ کا ٹوکرا سر پر لے کر بچوں کی گلی میں جاؤ جہاں یہ کھیل رہے ہوں اور آواز لگاؤ کہ جو میرے سر پر ایک دھپ لگائے گا اس کو پانچ اخروٹ دوں گا ۔بچوں کے تو مزے آگئے۔ دھپ لگانے کا مزہ اورا خروٹ پانے کا لطف، چند منٹ میں ٹوکرا خالی ہوگیا اخروٹ سے، اور ان کا کھوپڑا خالی ہوگیا عجب اور تکبر سے۔ پھر ذکر کا نفع محسوس ہونے لگا۔ ایک مجلس میں حضرت مفتی جمیل احمد صاحب تھانوی نے حضرتِ اقدس سے فرمایا کہ (۱)مسجد کا فرش جہاں ختم ہو وہاں پر امتیازی نشان ہونا چاہیے تاکہ معتکف کو معلوم ہوجاوے نیز ہر نمازی کو آسانی سے علم ہوجاوے۔ بعض مہتمم صاحبان فرماتے