مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
جو لوگ پڑھنے کو بدون سمجھنے کے بے کار سمجھتےہیں وہ یا تو جاہل ہیں یا بددین اور مخالف فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔قرآنِ پاک کا حافظ دراصل اس معجزہ ٔ عظیم کا محافظ ہے۔ ملک کے سرحد کے محافظ تو سرکاری آدمی سمجھے جاتے ہیں تو قرآنِ پاک جو کلام ربّ العالمین ہے اس کے حافظوں کو کیا سرکاری محافظ کا مقام حاصل نہ ہوگا؟ اور قرآنِ پاک کے ۳ حقوق نہایت اہم ہیں:(۱)عظمت (۲)تلاوت مع الصحت (۳)احکام پر عمل۔اگر دس منٹ صرف دو ماہ تک دیا جاوے تو قرآنِ پاک کے حروف کی ضروری صحت ہوجاتی ہے۔بوڑھے آدمی اگر کلام پاک کی صحت میں لگ جائیں تو اُمید ہے کہ اس کی برکت سے ان کی مغفرت ہوجاوے ،حق تعالیٰ شانہٗ کو رحم آجاوے گا کہ بوڑھا ہوکر ہمارے کلام کی درستی اور صحتِ تجوید میں لگا ہوا تھا۔اگر یہ کہا جاوے کہ حفاظ قرآنِ پاک کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے تراویح کو مشروع کیا گیا تو گنجایش ہے، بڑےحکّام اور سلطانِ مملکت اور بوڑھے بوڑھے شیخ الحدیث اور مفسرین ایک حافظِ قرآن نو عمر کے پیچھے رمضان شریف میں تراویح کے لیے مقتدی بن جاتے ہیں۔ جس حافظ بچے کو تعلیم کے زمانے میں پڑھاتے وقت مرغا بنایا جاتا تھا اسی بچے کو بالغ ہونے کے بعد بڑے بڑے وزراء اور محدثین امام بناتے ہیں۔ حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اتنے بڑے عالم اور حافظ اور شیخِ وقت ہوتے ہوئے مکہ شریف میں قاری عبداللہ صاحب سے مشق کیا کرتے تھے ؎ ایں چنیں شیخ گدائے کو بہ کو عشق آمد لا ابالی فاتقوا حضرت جبرئیل علیہ السلام اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم دو معصوم شخصیتیں قرآنِ پاک کا دور کیا کرتے تھے حالاں کہ ان حضرات میں نہ نسیان کا خطرہ تھانہ صحت کی غلطی کا امکان تھا۔خلاصہ یہ کہ قرآنِ پاک کے حقوق تین ہیں: عظمت، تلاوت مع الصحت، احکام کی متابعت۔ ارشاد فرمایا کہ تربیت اور اصلاح کے لیے صرف بزرگی کافی نہیں بلکہ اصلاح کے فن سے واقفیت بھی ضروری ہے۔اسی سبب سے ہر صالح مُصلح نہیں ہوتا ہے۔