مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
قبض میں بھی بسط کا تو لطف لے بے تسلّی بھی تسلّی چاہیے ہے جلالی تو جمالی گو نہیں کیا ہے جیسی ہو تجلّی چاہیے مشکوٰۃ میں حدیث ہے کہ مؤمن کی شان عجیب ہے ناموافق حالات میں صبر سے اور موافق حالات میں شکر سے حق تعالیٰ شانہٗ کی رضا و قرب حاصل کرتاہے ؎ قدم مجذوب کے رکتے نہیں بڑھتے ہی جاتے ہیں رفیق اک اک جدا منزل بہ منزل ہوتا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کے راستے میں کوئی ناشکری سے گر گیا اور کوئی بے صبری سے گر گیا۔ ناشکری سے نعمت چھین لی جاتی ہے۔ جس طرح حکومت کا بڑا افسر ہو اگر ڈیوٹی انجام نہ دے معطل ہوگا اور بنگلہ، کار سب چھین لیا جاوے گا۔اور شکر پر ترقی کا وعدہ ہے لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡاگر تم شکر کرو گے ہم تمہیں زیادہ عطا کریں گے۔ انسان میں کبھی ناز نہ پیدا ہونا چاہیے ہمیشہ نیاز کا راستہ رکھے۔ کسی سے ضابطے کا تعلق ہو اور رابطے کا تعلق بھی ہو تو ضابطے کے تعلق کو اگر بھول جاوے اور صرف رابطے کا تعلق یاد رکھے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے چھوٹے بچے کا ناز دیکھ کر بڑا لڑکا بھی باپ کے ساتھ اسی طرح حرکت کرنے لگے ۔ایک بزرگ تھے۔ قحط پڑا کچھ غلام خوش طبعی کررہے تھے۔ پوچھا: تم لوگ کیوں ہنس رہے ہو جب کہ قحط سے مخلوق پریشان ہے؟ کہنے لگے: ہم لوگ عمید آقا کے غلام ہیں، وہ ہم سب کا کفیل ہے۔ ان بزرگ کو ناز ہوا اور سخت بے تمیزی کا کلمہ منہ سے نکل گیا اور اب آسمان کی طرف دیکھ کر کہا:’’ آقا شدن از عمید بیاموز۔‘‘ ان کے علاج کے لیے حق تعالیٰ نے ان کو ایک دن دکھایا کہ ان ہی غلاموں کو درختوں پر لٹاکر عمید آقا بینت سے پٹائی کررہا ہے اور وہ سب غلام کہہ رہے تھے: ہم سے غلطی ہوئی اے آقا! ہم کو معاف کردیجیے۔ یہ منظر دیکھ رہے تھے