مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
وقتی طور پر نفس کو دبانا آسان ہے مگر دائمی طور پر نفس کو دبانا باطنی خشیت اور تقویٰ کے بغیر ممکن نہیں، اور خوف وخشیت اہلِ خشیت اور اہلِ خوف کی صحبت سے ملتی ہے۔ مگر بعض لوگوں کو یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر ہم اللہ والوں کے پاس جائیں گے تو ہم کو ناجائز دنیا اور گناہ کے لطف چھوڑنے پڑیں گے۔ تو میرے دوستو! چھوڑنا نہیں پڑے گا خود چھوڑ دو گے۔پڑنا تو بادلِ ناخواستہ ہوتا ہے۔ خود دل چاہے گا سب گناہ چھوڑنے کو۔ اللہ تعالیٰ نے حیدر آباد میں اس کی ایک مثال میرے قلب میں عطا فرمائی ہے، وہ یہ کہ مثلاًایک شخص پانچ ہزار روپے رشوت لےکر جارہا ہے راستے میں اس کا ایک دوست موٹر سائیکل سے دوڑ کر آیا اور کان میں کہا کہ ان نوٹوں کے بعض پر دستخط ہیں تم کو پھانسنے کے لیے ایسا کیا گیا۔ پولیس تمہاری تلاش میں تعاقب کررہی ہے۔ یہ شخص اسی وقت تمام نوٹوں کو خوشی خوشی پھینک دے گا یا نہیں ؟ یا وہاں دستخط والے نوٹوں کو تلاش کرے گا؟ اس وقت اس شخص کو پھینکنا پڑے گا یا خوشی خوشی پھینکے گا؟ اور ان نوٹوں کو پھینک کر غم محسوس کرے گا؟ اس وقت یہ خوشی ان نوٹوں کی جدائی سے کیوں ہورہی ہے؟ سزا کے یقین اور خوف سے۔ پس جہنم کا خوف اور اللہ تعالیٰ کے غضب اور قہر کا خوف جب اللہ والوں کے پاس آنے جانے سے پیدا ہوگا تو سب ناجائز کاموں سے خود ہی بھاگو گے اور خوشی خوشی چھوڑو گے۔ ایک واقعہ یاد آیا۔ حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک ریلوے کے ملازم آیا کرتے تھے۔ ان کی تنخواہ تین سو تھی اور گھر کا خرچہ ایک ہزار روپیہ ماہانہ تھا، سات سو روپے رشوت لیا کرتے تھے۔ جب حضرت مولانا کی صحبت سے ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہوا اور جہنم کی سزا کا دل میں یقین آیا اپنی بیوی سے مشورہ کیا اور کہا: دوزخ میں ہمارا کیا حال ہوگا۔ ہماری سب نیکیاں تو یہ لوگ اپنے حقوق کے بدلے میں لیں گے جن سے رشوت لے رہا ہوں۔ یہ مرغی اور مٹھائی کس کام آوے گی؟ بس مکان بدل دیا۔ چھوٹا مکان لیا۔ سادگی اختیار کی اور رشوت سے توبہ کی ۔اب صرف دو سو روپے میں گزر اوقات شروع کی اور سو روپیہ ہر ماہ رشوت جن لوگوں سے لیا تھا ان کو ادا کرنا شروع کیا۔ پھر یہ شخص بہت بڑے ولی اللہ ہوگئے اور مولانا کے خلیفہ