مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
تعلیمی خلل اور نقصان کے علاوہ ذلت بھی ہے۔چناں چہ مشاہدہ کیا گیا کہ دعوتوں کی زیر باری سے طلباء کو اپنی بحرالرائق فروخت کرنی پڑی اور اپنا بستر تک کسی دوکاندار کے یہاں رہن رکھنا پڑا۔(۲)اساتذۂ کرام کی سختی اور ڈانٹ کو نعمت سمجھیں۔مشہور ہے کہ جورِاستاد بہ از جورِ پدر (ترجمہ: استاد کی سختی بہتر ہے باپ کی سختی سے) (۳)باوضو رہنے کا اہتمام کیا جائے ۔بالخصوص مطالعہ با وضو کیا جائے۔ علامہ امام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک رات میں سترہ بار وضو کیا کیوں کہ دستوں کی وجہ سے وضو ٹوٹتا جاتا تھا۔ لیکن مطالعہ بدون وضو گوارا نہ کیا۔(۴)مطالعہ اپنے ذمہ لازم کرلیں۔ مطالعہ کا حاصل تمییزالمعلوم من المجہول ہے۔ یعنی اگر سب نہ سمجھ میں آوے تو نہ گھبرائیے، کم از کم اتنا تو نفع ہوگا کہ معلوم ہوجاوے گا کہ اتناحصہ سبق کا سمجھ میں آگیا اور اتنا سمجھ میں نہ آیا۔ پھر استاد سے سبق پڑھتے وقت مجہول بھی معلوم ہوجاوے گا۔ مطالعے میں بڑی برکت اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے۔(۵)استاد کا خوب ادب کرے۔ استاد کا دل اگر مکدر کردیا پھر ایسے شاگرد کو سبق سمجھ میں نہ آئے گا۔ عقل سے برکت اُٹھ جاوے گی۔(۶)اپنے کمروں کے سامنے اور احاطۂ مدرسے میں کاغذ کے ٹکڑوں کو اٹھالیا کریں۔ کاغذآلۂ علم ہے۔ اس کا ادب ضروری ہے۔ نظافت و صفائی بھی دین میں مطلوب ہے۔(۷)چار پائی، بستر اور ظروف قاعدے سے رکھیے۔حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ قَدِّرۡ فِی السَّرۡدِ؎ ہر چیز میں اعتدال اور جمال مطلوب ہے۔ (۸) تکبیرِ اولیٰ سے نماز کا اہتمام ہونا چاہیے۔ ایک رئیس اذان سن کر ترازو اٹھائے ہوئے تھے، فوراً رکھ دیا اور گاہک سے کہہ دیا بعد نماز تولوں گا۔ مسجد گئے۔ اور اسی وقت ایک دوکان پر ایک مولوی صاحب اخبار کا مطالعہ کررہے تھے، نماز جماعت سے نہ ادا کی۔ان کی وقعت اس دوکاندار کے قلب سے نکل گئی۔ حالاں کہ اس نے خود بھی نماز جماعت سے نہیں ادا کی تھی، لیکن اس نے کہا کہ ہم تو عامی ہیں یہ تو عالم ہیں۔ کچھ خاص اعمال ایسے ہیں جن سے عوام الناس طلباء اور علماء سے جلد بدگمان ------------------------------