مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
ہوئے رکنِ یمانی کا استلام کرلیا جب ان کو توجہ دلائی گئی تو فرمایا کہ مجھ سے سہو ہوگیا۔ میں نے رکنِ یمانی کو حجر ِاسود سمجھ لیا تھا (اژدہام و ہجوم سے نظر نہیں آیا) تو گزارش کردینے سے اکابر کو توجہ ہوجاتی ہے۔ اسی وجہ سے عرض کیا کرتا ہوں کہ عمل کو کتاب سے ملائیے اور کتاب کو افرادِ ماہرین سے سمجھیے۔ اکابر کے عمل کو حجت اور دلیل نہ بنائیے۔ بعض وقت ان کو بشری لوازم مثلاً نسیان و سہو طاری ہوسکتا ہے یا بشری کمزوری مانع ہوسکتی ہے۔ یا کسی مشغولی کے سبب توجہ یک طرف کو ہوجاتی ہے اور دوسری طرف سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔ ۲۵۹۔ ارشاد فرمایا کہ ایک ہمارے محترم بزرگ عالمِ کبیر مدینہ منورہ میں کھانا اس طرح تناول فرمارہے تھے کہ خود اونچے گدّے پر تھے اور کھانا نیچے رکھا گیا تھا۔ احقر نے ان کی توجہ اس طرف کرائی تو جلدی سے خود بھی نیچے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ ہمیں بتادینا چاہیے تھا ہم کو تو علم ہی نہ تھا کہ کھانا اس طرح رکھا گیا ہے۔ ۲۶۰۔ ارشاد فرمایا کہ آج کل وعظ اور دعوت کو جمع کیا جارہا ہے، اس رواج و رسم کو توڑنے کی ضرورت ہے۔ اس میں حسب ذیل مفاسد ہیں: (۱)اہل ِخانہ کھانے اور چائے کی فکر میں وعظ سننے نہیں پاتے،اور اگر سنتے بھی ہیں تو گھروالوں کا دل آنے والوں کی تعداد اور اپنے کھانے کی مقدار میں توازن اور تناسب کی ضرب اور تقسیم میں مشغول رہتا ہے۔(۲)جو خاندان کے لوگ غریب ہیں ان کی ہمت وعظ کہلانے کی نہ ہوگی کیوں کہ وہ اس رسمِ دعوت سے گھبرائیں گے کہ وعظ کے لیے اتنا روپیہ کہاں سے لائیں ، اور اگر قرض لے کر دعوت کا انتظام کریں تو یہ اور مصیبت کا سبب ہے۔(۳)علماء کی بے وقعتی بھی ہے۔ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ بدون لقمۂ تر مولویوں کے قدم کہاں اٹھتے ہیں۔ حالاں کہ مولوی کے صدقے میں بہت سے لوگ مال اڑائیں گے لیکن بدنام بے چارہ مولوی ہوگا۔ ۲۶۱۔ ارشاد فرمایا کہ مدارس کے طلباء سے احقر حسب ذیل گزارش کیا کرتا ہے:(۱)طلبائے کرام آپس میں ایک دوسرے کی دعوت نہ کیا کریں اس میں