مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
۲۵)ارشاد فرمایا کہ (حضرتِ اقدس کی مجلس میں احقر اور کچھ احباب اہلِ علم نیچے بیٹھے تھے اور کچھ احباب حضرت کے ساتھ اُوپر بیٹھے تھے) جس کو جہاں جگہ مل جاوے بیٹھ جائیں،ہم لوگ طالبِ علم ہیں، اُوپر بیٹھنا بلند رتبہ ہونے کی علامت نہیں ہے۔ پھر ایک حکایت خاقانی شاعر کی بیان فرمائی کہ شاہی دربار میں ا ن کو نیچے جگہ ملی اور ان سے کم قابل لوگ اُوپر بیٹھے تھے تو انہوں نے کھڑے ہوکر ایک شعر پڑھا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ جو لوگ اُوپر بیٹھے ہیں یہ ان کی رفعتِ شان کی دلیل نہیں اور میں نیچے بیٹھا ہوں تو یہ میری کوئی ذلّت نہیں اور اس کی مثال قرآن میں دیکھ لو کہ سورۂ تَبَّتۡ یَدَاۤ اَبِیۡ لَہَبٍ؎ اوپر ہے سورۂ قُلۡ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ؎ اس کے نیچے ہے۔ پس معلوم ہوا کہ یہ سببِ فخر آپ لوگوں کے لیے نہیں اور ہمارے لیے یہاں بیٹھنا سببِ ذلت نہیں۔ خاقانی کے اس شعر سے لوگ متحیر رہ گئے ؎ گر فروتر نشست خاقانی نَے مرا ننگ نَے ترا ادب ست قل ھو اللہ کہ وصفِ خالق ِ ماست زیرِ تبت یدا ابی لہب است ۲۶) ارشاد فرمایا کہ حفظِ قرآن کی ایک آسان صورت یہ سمجھ میں آئی ہے کہ ایک آیت ہر روز یاد کرے تو سال میں ایک پارہ تو ضرور ہی ان شاء اللہ تعالیٰ یاد ہوجائے گا اور تیس سال میں پورے حافظ ہوگئے، اور اگر اس سے قبل انتقال ہوگیا تو قیامت کے دن حافظ اُٹھایا جائے گا۔ اسی طرح اگر محلّے کے تیس آدمی ایک ایک پارہ تقسیم کرکے یاد کرلیں تو سال میں تیس پارے سب کو الگ الگ یاد ہوجائیں گے پھر کسی سامع کی ضرورت تراویح میں نہ ہوگی۔ اسی طرح ہر آدمی ایک پارہ قرآنِ پاک بھی سنا سکتا ہے اور تیس دن میں تیس آدمی پورا قرآن سناسکتے ہیں پھر کسی ------------------------------