مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
ہے اور مفلس دنیا کا عاشق دنیا دار ہے) (۸)توکل یعنی حق تعالیٰ پر بھروسہ کرنا، لیکن تدابیر کو ترک نہ کرے تدبیر کرے،مگر بھروسہ تدبیر پر نہ کرے کیوں کہ تدبیر کا کامیاب کرنا حق تعالیٰ کے قبضے میں ہے۔ پس تدبیر کرکے حق تعالیٰ سے کامیابی کی دعا کرتا رہے۔ (۹)رضا برقضا یعنی اللہ کی طرف سے جو اُمور پیش آتے ہیں بیماری، تنگ دستی وغیرہ تو نہ دل سے حق تعالیٰ پر اعتراض کرے نہ زبان سے، یہ سمجھے کہ حق تعالیٰ حاکم ہیں، حکیم ہیں، ولی ناصر ہیں، اسی میں خیر ہے۔ حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اسی مضمون کو یوں فرمایا ہے ؎ مالک ہے جو چاہے کرے تصرف کیا وجہ کسی بھی فکر کی ہے بیٹھا ہوں میں مطمئن کہ یارب حاکم بھی ہے تو حکیم بھی ہے (۱۰) وطنِ اصلی کی فکر یعنی آخرت کی تیاری ؎ قبر میں میت اترنی ہے ضرور جیسی کرنی ویسی بھرنی ہے ضرور ۱۹۸۔ارشاد فرمایا کہ مسلمان تین قسم کے ہیں: (۱) فاسق (۲) صالح (۳)مصلح۔ جیسے مریض، تندرست، طبیب۔ پس جس طرح مریض سے اور تندرست سے صحت کے لیے رجوع نہیں کرتے بلکہ طبیب کے پاس جاتے ہیں اسی طرح فاسق اور صالح سے نفس کی اصلاح نہ ہوگی مصلح تلاش کیا جاوے جو صالح بھی ہو اور اصلاح کے فن سے واقف بھی ہو، اور مشایخ و اکابرِ وقت اس کے مصلح ہونے کی تصدیق کرتے ہوں۔ ۱۹۹۔ ارشاد فرمایا کہ وضو کی چودہ سنتوں کو ترتیب وار میں نے طلباء کو زبانی یاد کرادیا ہے:(۱)نیت کرنا (۲)بسم اللہ پڑھنا (۳)دونوں ہاتھ گٹوں تک دھونا(۴) مسواک کرنا (۵)کلی کرنا (۶)ناک میں پانی ڈالنا (۷)داڑھی کا خِلال کرنا (۸)ہاتھ