مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
ہوئی تو مدرسے کا احسان اور اس کے وجود کو ضروری تسلیم کرنا ہوگا۔ اسی طرح انہوں نے ایک بزرگ سے تزکیۂ نفس کرایا تو خانقاہ کا احسان اور اس کا وجود بھی ضرور ی تسلیم کرنا ہوگا۔ اگر کسی غیر عالم سے اس جماعت کی بنیاد پڑی ہوتی تو اب تک کتنی گمراہی پھیلی ہوتی! پس دین کے تین شعبے ہیں: تعلیم، تزکیہ، تبلیغ۔ ہر ایک شعبے والوں کو ایک دوسرے کا معاون اور رفیق سمجھنا چاہیے۔ جیسے ڈاکخانے کے محکمے میں کوئی مہر لگارہا ہے، کوئی رجسٹری اور خطوط تقسیم کررہا ہے، کوئی پارسل کررہا ہےوغیرہ۔ ۱۸۵۔ ارشاد فرمایاکہ شاہ زادوں کو گھڑی بنانا اور ہوائی جہاز بنانا نہیں سکھایا جاتا،ان کو آدابِ سلطنت اور آداب ِخسروانہ سکھائے جاتے ہیں۔ پس جن حضرات کی پوری توجہ حق تعالیٰ کی رضا اور اعلائے کلمۃ اللہ میں مصروف ہے وہ شاہ زادے ہیں۔ ان کا کام فنون سیکھنا نہیں ہے۔کیوں کہ اگر سرکاری آدمی کو تجارت کی اجازت دے دی جائے تو پھر سرکاری کام کے قابل یہ شخص نہ رہے گا۔ اگر چہ تجارت کا نفع صرف ایک دن کا اس کی سال بھر کی تنخواہوں کے مجموعے سے بھی بڑھ جاوے۔ پس تجربے سے یہی معلوم ہوا کہ دین کی تعلیم کے ساتھ اگر دنیا کی تعلیم بھی دی گئی تو آدمی دین کا نہیں رہتا، دنیا ہی کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ پس مخدوم کا کام الگ ہے خادم کا کام الگ ہے۔ اگر مخدوم بھی خادم کا کام کرنے لگے تو مخدوم کا کام کون کرے گا! اگر اسٹیشن ماسٹر کنٹرولر سگنل نہ دے تو گارڈ اور ڈرائیور کچھ نہیں کرسکتے، مگر عام لوگ ریل چلانے میں گارڈ اور ڈرائیور ہی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں کیوں کہ بظاہر یہ نظر آتے ہیں اور کنٹرولر اندر ہوتا ہے نظر نہیں آتا۔ نیز تجربہ ہے کہ اگر اخلاص سے دین کی خدمت میں لگا رہے تو دنیاوی کاموں میں حق تعالیٰ غیب سے مدد فرماتے ہیں اور تھوڑی روزی میں بڑی برکت دیتے ہیں، اور سکونِ قلب اور فراغِ قلب کی جو نعمت ہے وہ الگ ایک بڑا انعام ملتا ہے جو ہفت اقلیم کی سلطنت سے بھی افضل ہے۔