مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
قیام کے لیے روک رہے ہیں لیکن جب انہوں نے شیخ الحدیث صاحب سے (جو ان کے شیخ ومرشد ہیں) مشورہ لیا تو فرمایا کہ ہندوستان واپس جاکر ہردوئی میں کام کرو، میں تو بوڑھا ہوچکا ہوں دین کی خدمت کے قابل نہ رہا اس لیے میری اور بات ہے۔ مجھے بھی پاکستان بلایا جارہا تھا اور ایک رئیس تمام طلباء کو ہوائی جہاز سے بلانے پر خواہش مند تھے او رزمین دینے کو بھی تیار تھے لیکن حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری نے فرمایا کہ نہیں !آپ یہاں ہی رہ کر دین کا کام کریں۔اور مولانا محمد شفیع بجنوری رحمۃ اللہ علیہ جو بڑے صاحب ِکشف تھے، ان کو یہ کشف ہوا کہ میں ہندوستان ہی میں دین کا کام کروں۔ پھر نفعِ متعدی کی بھی دو قسمیں ہیں: ایک جگہ تو نفع یقینی ہے دوسری جگہ نفع موہوم اور مظنون۔ تو یقینی نفع کو ترجیح دی جاوے گی۔ مگر یہ تقدیم اور ترجیح کا مسئلہ ہے، نہ کہ نفعِ متعدی میں اس قدر مشغول ہوجاوے کہ نفعِ لازم کا خیال ہی نہ رہے۔ خدّامِ دین کے لیے تو جہ الی اللہ،استغفار اور ذکر کا التزام بھی ضروری ہے۔ اس سے ان کی تعلیم میں برکت ہوگی۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تشریح اس طرح فرمائی ہے کہ دو ماؤں میں ایک وہ جو تندرست ہے اور اچھی غذا کھاتی ہے دوسری ماں وہ ہے جو بیمار ہے اور کمزور ہے اور اچھی غذاؤں سے محروم ہے تو اس کے بچے بھی کمزور ہوں گے اور پہلی والی کے بچے بھی تندرست و طاقتور ہوں گے،کیوں کہ اس کے دودھ زیادہ ہوگا۔ ۱۸۳۔ ارشاد فرمایا کہ دینی خُدّام کو اپنے اکابر کی خدمت میں حاضری کا سلسلہ بھی رہنا چاہیے۔ جیسے خوردہ فروش کہ بڑے کارخانے سے مال لیتے ہیں پھر دوسروں کو سپلائی کرتے ہیں۔ایک طرف سے لے دوسری طرف دے۔ اس طرح نفس میں بڑائی بھی نہیں آنے پاتی۔ ورنہ مسندِ مشیخت پر جم کر بیٹھ رہنے سے پھر شیطان دماغ خراب کردیتا ہے۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ جس نے اپنے کو مستقل بالذات سمجھ لیا وہ مستقل بد ذات ہوگیا۔ ۱۸۴۔ ارشاد فرمایا کہ تبلیغی جماعت کی بنیاد جب ایک عالمِ ربّانی کے ہاتھ سے