مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
کہ وتر کے بعددو رکعت نفل کو بیٹھ کر پڑھنے کا ایک رواج چل پڑا ہے اور ہر شحص دیکھا دیکھی نقل کرتا ہے۔ کسی عالم سے دریافت کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے۔جس کا انجام یہ ہے کہ پورے ثواب سے محروم ہوکر آدھے ثواب پر خوش ہیں۔ یہ علمِ صحیح نہ حاصل کرنے کا انجام ہے۔ ۱۷۵۔ ارشاد فرمایا کہ ہمارے یہاں نورانی قاعدے میں بارہ مرتبہ امتحان ہوتا ہے۔ ایک تختی جب تک سو فیصد خوب یاد نہ ہوجاوے اور امتحان میں پاس نہ ہوجاوے آگے ترقی نہیں دی جاتی،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ قرآنِ پاک میں تجوید کا مقام ہمارے یہاں الحمد للہ! معیاری ہے۔ نیز حفظِ قرآن کی پختگی اس طرح ہوتی ہے کہ بعض بچوں کاپندرہ رمضان کو ختم ہوا اور انہوں نے تراویح میں پورا قرآن سنادیا۔ ۱۷۶۔ ارشاد فرمایا کہ اگر طلباء کسی جلسے میں قرآنِ مجید غلط پڑھیں تو ان کو اسی وقت ٹوک دینا چاہیے۔محض مدرسے کی سبکی یا بچوں کی توہین کے خوف سے احکم الحاکمین کا کلام غلط پڑھنے پر خاموش رہنا کیسے جائز ہوگا؟ ۱۷۷۔ ارشاد فرمایا کہ آج کل جھگڑا اور فساد کی جڑ حُبِِّ جاہ ہے۔ ہر شخص بڑا بننے کی کوشش میں ہے۔ امام بننے میں تو جھگڑا ہوتا ہے مگر مقتدی بننے میں جھگڑا نہیں ہوتا۔ جھگڑا امامت میں ہے۔ ۱۷۸۔ ارشاد فرمایا کہ اذان کے وقت تلاوت اور ذکر روک دے۔ جب سنت پر عمل کرے گا تو قلب میں نور پیدا ہوگا۔ پھر نور ِقلب سے تلاوت کرے گا تو خوب نور پیدا ہوگا۔ ۱۷۹۔ ارشاد فرمایا کہ مؤذن ایسا ہو جو امامت بھی کرسکے۔ ایک مقام پر مؤذن نے بہت عمدہ نماز پڑھائی، بعد میں معلوم ہوا کہ یہ مؤذن ہیں۔ میں نے تنخواہ معلوم کی تو بتایا پونے چار سو روپیہ،اورامام کی تنخواہ گیارہ سو روپیہ ۔بہت خوشی ہوئی۔ آج ہر کام میں اس کام کا ماہر تلاش کیا جاتا ہے مگر قرآن پڑھانے کے لیے اور اذان دینے کے لیے اور امامت کے لیے سستا تلاش کیا جاتا ہے۔ یہ دین کی بے وقعتی نہیں تو اور کیا ہے؟