مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
سمجھے فریق نہ سمجھے۔جیسے ریل کا محکمہ ٹکٹ دینے والا اور گارڈ اور ٹی ٹی اور سگنل دکھانے والا سب ایک دوسرے کو ریلوے کا ملازم سمجھ کر آپس میں اپنے کو ایک دوسرے کا رفیق اور مددگار سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کا لحاظ اور مراعات رکھتے ہیں۔ حسد کی بیماری آپس میں تقابل اور تفاضل سے پیدا ہوتی ہے۔ پس خدّامِ دینی اور احبابِ مدارس کو اپنے اپنے کاموں کا تعارف تو کروانا چاہیے لیکن تفاضل اور تقابل نہ کرانا چاہیے کہ اس سے دوسرے دینی خدام کی تحقیر ہوتی ہے جو منافرت کا سبب بنتی ہے اور پھر آپس میں حسد کی بیماری لگ جاتی ہے۔ ۱۷۳۔ ارشاد فرمایا کہ کسی چیز کا نافع ہونا اس کے کافی ہونے کی دلیل نہیں۔ پس کسی جماعت کا اپنے طریقۂ خدمتِ دینی کے متعلق یہ کہنا کہ بس صرف یہی طریقہ نافع ہے حد سے تجاوز اور جہل و نادانی ہے۔ اکابر اور مقبولین اور بزرگانِ دین سے کہیں بھی اس قسم کی باتیں ثابت نہیں۔ یہ باتیں کم علم اور غیر صحبت یافتہ نادان لوگ کرتے ہیں۔ جس طرح تزکیۂ نفس کے لیے اہل ِخانقاہ کی خدمات نافع تو ہیں لیکن کافی نہیں کہہ سکتے، اور قرآنِ پاک کی تعلیم قواعد کی رعایت سے ہو اس کے لیے قرآنِ پاک کے مدارس کی بھی ضرورت ہے،پس کوئی شعبہ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ کا مظہر ہے،کوئی شعبہ یُزَکِّیۡہِمۡ؎ کا مظہر ہے۔علم ِدین کی درسگاہیں بھی ضروری ہیں کیوں کہ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ؎ کا حکم قرآن نے بیان فرمایا ہے اور جب مَاۤ اُنۡزِلَ کا علم ہی نہ ہوگا تو کس چیز کی تبلیغ ہوگی! مثلاً وضو کی سنتیں ہیں پہلے خود سیکھے گا تب تو دوسروں کو سکھائے گا۔ ۱۷۴۔ ارشاد فرمایا کہ آج کل علمِ صحیح نہ ہونے سے بہت سے لوگ نمازِ وتر کے بعد نفل بیٹھ کر پڑھتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ جب تمام نمازیں کھڑے ہوکر پڑھیں حتیٰ کہ تراویح کی بیس رکعات کھڑے ہوکر پڑھ لیں تو وتر کے بعد دو رکعت کیوں بیٹھ کر پڑھتے ہیں جب کہ بیٹھ کر پڑھنے سے ثواب آدھا ملتا ہے۔ معلوم ہوا ------------------------------