مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
کر کار کھڑی ہوجاوےگی، اسی طرح سالک ذکر کے انوار سے اللہ تعالیٰ کا راستہ طے کرتا ہے مگر دل کے نور کی ٹنکی کو شیطان اور نفس آنکھ، کان اور زبان وغیرہ کے گناہ سے خالی کردیتے ہیں جس سے سالک کی ترقی رُک جاتی ہے۔پس ہر گناہ کی عادت سےسچی تو بہ ضروری ہے۔ بالخصوص بدنظری اور گندے خیالات اور بدگمانی اور غیبت سےکہ اس زمانے میں ان معاصی میں بہت کثرت سے ابتلا ہے۔ اپنے شیخ و مرشد سے سب حالات کہہ کر مشورہ کرتا رہے اور عمل کرتا رہے تو ان شاء اللہ تعالیٰ راستہ ضرور طے ہوجاوے گا۔ احقر مرتّب عرض کرتا ہے کہ گرتا ہوا پھر سنبھلتا ہوا راستہ چلتا رہے تو بھی راستہ طے ہوجاتا ہے۔ لہٰذا گر کر پڑا ہی رہنے والا محرومِ منزل ہوتا ہے۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا شعر ہے ؎ ظالم ابھی ہے فرصت توبہ نہ دیر کر وہ بھی گرا نہیں جو گرا پھر سنبھل گیا ایک بڑے عالم جو ایک مشہور ادارے کے شیخ الحدیث بھی تھے، حضرتِ اقدس تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا کہ زکوٰۃ ادا کرتے وقت طبیعت میں کچھ گرانی سی محسوس ہوتی ہے جس سے شبہ ہوتا ہے کہ شاید میرے اندر اخلاص کی کمی ہے۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ اخلاص تو ہے مگر بشاشت نہیں ہے، اور بشاشت اور اخلاص میں تلازم نہیں۔ جی نہ چاہنے سے اعمال کا اَجر دگنا ہوجاتا ہے۔ ۱۶۹۔ ارشاد فرمایا کہ کسی مصلح اور مرشد کی دارو گیر اور سختی کرنے پر اُسے چھوڑ کر دوسرے شیخ کے یہاں بھاگنا دراصل اخلاص کے منافی ہے، اور محض حظِّ نفس ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ طبیب نے دوائے تلخ تجویز کی اور مریض میٹھی دوا کے لیے اسے ترک کردے۔ ۱۷۰۔ ارشاد فرمایا کہ مولوی شبیر علی صاحب ایک مرتبہ حضرت والا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کسی مشورے کے لیے گئے،پھر جب اپنے دفتر میں آگئے تو