مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
۱۸) ارشاد فرمایا کہ جو طالبِ علم اُصول کی پابندی نہ کرے فوراً اس کا اخراج کرے ،جس طرح درخت میں جو شاخ خراب ہوتی ہے اس کو فوراً کاٹ دیتے ہیں۔ ۱۹) ارشاد فرمایا کہ ہمارے مدرّسین کی تعداد ۱۶۰ ہے مگر ان کے شرائطِ تقرّری میں ہے کہ ان کااکابر سے کسی کے ساتھ اصلاحی تعلق ضرور ہو، اس کا فائدہ اس وقت معلوم ہوتا ہے جب کوئی اُستاد بغاوت اور بے تمیزی پر آمادہ ہوجاتا ہے فوراً اس کے مصلح اور مرشد کو اطلاع کرکے اس کا اخراج آسان ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمارے یہاں تقرر سے قبل ہر مدرّس کو تین مہینہ مرکز میں تربیت دی جاتی ہے۔ اسی طرح ہر مدرّس کا خواہ وہ عالم بھی ہو، اس کا امتحان قاعدے میں ضرور ہوتا ہے۔ اس میں بعض عالم صاحب کو عار محسوس ہوئی اور کہا کہ میری سند دیکھ لیجیے کہ میں نے کتنی کتابیں پڑھیں ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ مگر اس میں قاعدہ تو نہیں لکھا ہے۔ پھر ان کے سامنے ایک قاعدہ پڑھنے والے بچے کو بلایا اور اس سے حروف ادا کرائے گئے تب انہوں نے اقرار کیا کہ یہ تو مجھ سے اچھا پڑھتا ہے۔ پھر میں نے کہا کہ اگر آپ کو اس بچے کا امام بنادوں تو آپ کی اس بچے کے قلب میں کیا وقعت ہوگی؟ ماشاء اللہ! اسی وقت نادم ہوئے اور قاعدہ شروع کردیا۔ ۲۰) ارشاد فرمایا کہ ہمارے یہاں مُؤذنین اور ائمہ کی بھی تربیت کا نصاب ہے اور ہم اُن کو اس کے لیے معقول وظیفہ دیتے ہیں۔ آج کل عام طور پر اذان اور تکبیر غلط کہتے ہیں، کوئی حَیَّ عَلَی الْفَلَاحْکی حا پر زیر دے کر وصل کرتا ہے کوئی قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃْکے آخر حرف پر پیش پڑھ کر وصل کرتا ہے، یہ سب اُصولِ فقہ سے جہل کے سبب ہے۔ایک سانس میں اَللہُ اَکْبَرْکے چار کلمات کہے اور ہر کلمے پر جزم کرے، اسی طرح حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃْ کی تا نہ ظاہر کرے بلکہ جزم کرے، اسی طرح قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃْکی تا بھی ظاہر نہ کرے بلکہ جزم کرے۔ ۲۱) ارشاد فر مایا کہ پولیس مین اور پوسٹ مین اپنی اپنی وردی سے شناخت کرلیے جاتے ہیں مگر آج کل طالبِ علمِ دین کا تعارف کرانا پڑتا ہے، صلحاء کی وضع