مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
جب حلوا بند ہوجاوے تو شکایت۔ حلوا کھلاکر امتحان نہیں ہوا کرتا ،امتحان محبت کا تو تکالیف میں ہوا کرتا ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عبدیت اس کم عمر ی میں اللہ اکبر! کس مقام پر تھی، گردن پر چھری چلنے والی ہے اور باپ سے فرمارہے ہیں سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ؎ ذبح میں کس قدر تکلیف ہوتی ہے مگر راضی ہیں۔عشق کے دعویٰ پر ایک حکایت مثنوی میں مذکور ہے، ایک شخص ایک عورت کے پیچھےپیچھے پھر رہا تھا اس نے پوچھا: یہ کیا؟ اس نے کہا: میں تجھ پر عاشق ہوں۔اس نے کہا: پیچھے دیکھ میری بہن مجھ سے بھی خوبصورت آرہی ہے، اس نے فوراً پیچھے دیکھا اس نے کہا: اے جھوٹے بے شرم! اگر تو اپنے دعوائے عشق میں صادق تھا تو غیر پر کیوں نظرڈالی ؎ پس چرا بر غیر افگندی نظر اس حکایت سے ہمارے حالات کا پتا چلتا ہے۔ حق تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ ہے اور غیرِ حق سے بھی دل لگائے بیٹھے ہیں۔ از مرتب عفی عنہ:قلب کو خدائے پاک کے سپرد کردینا اصل عبدیت ہے، اسی لیے اہلِ اللہ کو اہل دل بھی کہتے ہیں۔ اس کو احقر نے اپنی فارسی مثنوی میں اس طرح عرض کیا ہے ؎ اہل ِ دل آنکس کہ حق را دل دہد دل دہد او ر ا کہ دل را می دہد اہلِ دل وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنا دل خدائے پاک کو دے دیا اور دل اسی ذات کو دیتے ہیں جودل عطا فرماتے ہیں۔یعنی اپنی تمام خواہشات کو حق تعالیٰ کی مرضیات کے تابع کردیتے ہیں،کیوں کہ دل ہی مرکز اور ظرف خواہشات کا ہے پس ظرف مع مظروف فدا کرتے ہیں۔ پس یہاں ظرف بول کر مظروف مراد لینا یعنی تسمیۃ المظروف باسم الظرف از قبیل مجازِ مرسل ہے۔ ------------------------------