مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
۲۳) طالبِ علم کو چاہیے کہ استاد کی تعلیم کے وقت مسکرائے نہیں۔ اگرچہ مسکرانا اس وجہ سے ہو کہ وہ اسے اچھی معلوم ہوتی ہے،کیوں کہ یہ صورت بے ادبی اور بے قدری کی ہے۔ ۲۴) استاد کی تقریر میں اگر کوئی لفظ فارسی یا عربی کا ہے اور اس کے معنیٰ نہ معلوم ہوں یاکتاب میں کوئی لفظ آیا جو مشہور ہو اور اس کا ترجمہ نہیں کرایا گیا تو استاد سے اس کے معنیٰ پوچھ لے۔غفلت اور شرم نہ کرے کہ سب ہنسیں گے کہ ایسے مشہور لفظ کے معنی نہیں جانتا، کیوں کہ اگر نہ پوچھے گا تو ہمیشہ جاہل ہی رہے گا۔ مثل مشہور ہے: شِفَآءُ الْعَیِّ السُّؤَالُ؎ یعنی جہل کی شفاء سوال ہے۔ ۲۵) اگر کسی مسئلے میں استاد کی تقریر ذہن میں نہ بیٹھے تو کچھ دیر تک استفادہ کے لہجے میں خندہ پیشانی کے ساتھ اپنی تقریر کرے اگر پھر بھی سمجھ میں نہ آوے تو خاموش ہوجاوے اور دل میں یہ رکھ لے کہ اس کی تحقیق کروں گا۔ بعد کو کتابوں سے علماء سے تحقیق کرےاور اگر اپنی رائے صحیح ہو اور استاد حق پسند ہو تو اس کتاب اور بڑے عالم کی تحقیق کو ان کے سامنے پیش کردے۔ اگر استاد کی تقریر صحیح ہو تو معذرت کرلے کہ آپ صحیح فرماتے تھے میں غلطی پر تھا۔ استاد کے مقابلے میں مکابرہ مناظرہ، مجادلہ کی صورت ہر گز نہ بنائے۔ یعنی آنکھیں نہ چڑھیں، گفتگو میں تیزی نہ ہو پیشانی پر بل نہ ہوں بڑوں کے مقابلے میں یہ بے ادبی ہے۔اور اوروں کے مقابلے میں گو مناظرہ نامناسب نہیں مگر بعض وجہوں سے وہ بھی ناجائز ہوجاتا ہے۔ مثلاً: فریقِ مخالف نے حق بات کہی اس نے ہٹ دھرمی سے رد کردیا ،یا مجمع کی شرم سے فی الحال نہیں مانا یہ دونوں امر ناجائز ہیں۔ لہٰذا وہ امر جائز بھی ناجائز ہوجائے گا۔ ۲۶) استاد کو تقریر کے وقت اپنی طرف زیادہ متوجہ کرنا چاہیے شوق وطلب زیادہ پیدا کرے، کیوں کہ طالب ہی کی طرف مطلوب پہنچتا ہے ؎ ------------------------------