مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
گر تو قرآں بدیں نمط خوانی بہ بری رونقِ مسلمانی ۱۷) استاد اگر علم کے متعلق باتیں کرے یا اورکوئی بات عمدہ بیان کرے تو اسے خوب توجہ سے سنے اور کسی کاغذ میں نوٹ کرے اور اسے خوب یاد کرے ۔ اس بھروسہ پر نہ رہے کہ وہ تو میرے پاس رکھی ہوئی موجود ہے۔ کیوں کہ نہ معلوم تمہیں کب اور کہاں اس بات کی ضرورت پڑے تو اس کاغذ کو کہاں لیے پھرو گے، اور اگر گم ہوگیا تو تمہارا علم ہی گیا۔ اسی لیے کہا ہے کہ علمِ سینہ چاہیے علمِ سفینہ نہیں۔ علم کی شان تو یہ ہے کہ نہ چور چراسکے اور نہ وراثت میں تقسیم ہوسکے۔ ۱۸)سبق پڑھنے کے لیے جب جگہ خالی ہو تب جائے تاکہ ازدحام سے تکلیف و انتشار نہ ہو۔ ۱۹)طالبِ علم بغیر مطالعہ سبق نہ پڑھے، کیوں کہ بغیر مطالعہ پڑھنے سے پڑھتے وقت جب استاد کچھ تقریر کرتا ہے تو سمجھ میں نہیں آتی۔ اگر سمجھ بھی لے تو جلدی یاد نہیں ہوتی،اگر یاد بھی ہوجاتی ہے ٹھہرتی نہیں۔ اگر مطالعہ کرکے پڑھے گا تو ان آفتوں سے محفوظ رہے گا۔ ۲۰) پڑھتے وقت اِدھر اُدھر نہ دیکھے۔ ۲۱) اگر سبق میں بہت سے شریک ہوں تو ناغہ نہ کرو، بہت کوشش کرو ساتھ میں پڑھنے کی، کیوں کہ اگر بعد کو طلبہ سے تکرار کرلو گے تو استاد کی ساری تقریر کو طالبِ علم نہیں دہراسکتا۔ اگر استاد ہی سے پڑھو گے تو بھی مجمع میں جو مضامین استاد کے قلب میں آئے تھے وہ نہ آئیں گے اگرچہ استاد کوشش بھی کرے۔ خلاصہ یہ کہ بہت سی باتوں سے اگر ناغہ کرو گے محروم ہوجاؤ گے۔ ۲۲) طالبِ علم کو چاہیے کہ پڑھتا جائے اور مشق کرتا جائے۔ تاکہ پڑھا ہوا خوب محفوظ رہے۔ اگر عربی پڑھتا ہے تو قرآنِ مجید میں غور کیا کرے۔ اگر کہیں قرآنِ مجیدمیں پڑھے ہوئے کے خلاف ملے تو قرآنِ مجید کی اصلاح نہ کرے بلکہ اس پڑھی ہوئی کتاب کو قرآن کے موافق کرے۔ یعنی جو قرآن شریف میں ہے اسی کو صحیح جانے۔