مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
کیوں کہ اس میں کتاب کی بے ترتیبی اور بے انتظامی ہے۔ ۹)سبق آگے جھک کر سناوے۔ پیچھے تن کر نہ سناوے ۔اس میں بے پروائی و بے ادبی ہے۔ ۱۰) جب کہیں جائے، کسی سے کچھ بات کرے یا سبق سنائے تو ایک کام طے کرکے دوسرا شروع کرے۔ مثلاً: جب سبق پڑھ لے تب کوئی بات یا پیغام کہے۔ ۱۱) سبق محض ذہن پر چڑھاکر استاد کو نہ سناوے، کیوں کہ ایسا یاد کرنا بالکل نہیں ٹھہرتا۔ سبق خوب رٹ کر یاد کرنا چاہیے۔ تاکہ دل پر نقش ہوجائے اور ہمیشہ یاد رہے۔ ۱۲) سوال سمجھ کر جواب دے، بے سمجھے جواب نہ اڑانا شروع کردے۔ ۱۳) اگر استاد بہت سی باتیں تعلیم کرے یا بہت سے الفاظ پر قراء ت میں روک ٹوک کرے تو چند باتیں اپنے ذہن میں نوٹ کرلے، اگر نوٹ شدہ زیادہ ہوجائیں تو ان میں سے بھی نوٹ کرے۔اور یہ بھی خیال رکھے کہ اگر کسی بزرگ کی خدمت میں جاوے یا کسی عالم کے وعظ میں شریک ہو تو وہاں بھی ان کے مضامین کا انتخاب کرے۔ ۱۴) جن الفاظ کا ترجمہ بوجہ حیا کے نہ کرسکے ترجمہ میں وہ لفظ ہی کہہ لے اور نہ کسی سے ایسے الفاظ کا ترجمہ کراوے۔ ۱۵) سبق ناغہ نہ کرے اس میں بے برکتی ہوتی ہے، دل اکھڑ جاتا ہے پڑھا ہوا بھول جاتاہے شوق میں کمی ہوجاتی ہے۔ ۱۶) قرآنِ مجید بناکر باقاعدہ پڑھے۔ اس سے قلب میں بہت نور اور صفائی ہوتی ہے۔ گڑبڑ پڑھنے سے قرآنِ مجید لعنت کرتاہے۔اور اللہ تعالیٰ بھی خوش نہیں ہوتے۔ کیوں کہ قرآنِ مجید پڑھنا اللہ تعالیٰ سے باتیں کرنا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اگر کسی سے کوئی باتیں کرے اور بے تمیزی سے باتیں کرے تو مخاطب کو سخت تکلیف ہوتی ہے اور تمیز سے اگر باتیں کرے تو جی بہت خوش ہوجاتا ہے۔ اور چاہتا ہے کہ اس باتمیز کو کیا انعام دےدوں۔اور باقاعدہ پڑھنے سے خود بھی عمر بھر لطف اٹھاتا ہے اور دوسرے بھی اور بے قاعدہ پڑھنے سے نہ خود مزہ پاتا ہے اور نہ دوسرا۔ بلکہ مصداق ؎