مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
بیٹھا ہوں میں مطمئن کہ یا رب حاکم بھی ہے تو حکیم بھی ہے حضرت حکیم الاُمت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھےکہ قبض کی حالت سالک پر شاق تو گزرتی ہے کیوں کہ ایسی حالت میں دل کی بے کیفی کے سبب عبادت میں لذّت کم معلوم ہوتی ہے لیکن اس وقت ہمّت و ارادے سے تمام معمولات میں لگا رہنا چاہیے، اس سے سالک کا عُجب اور پندار ٹوٹ جاتاہے اور عبدیت کی تکمیل ہوتی ہے جو حالاتِ رفیعہ سے ہے یہ حالت پھر تبدیل ہوجاتی ہے۔ بس اپنے معمولات ہی کو مقصود سمجھے یعنی ذکر خود مقصود ہے اور ذاکرِ اسم کو مسّمٰی کی مجالست جو حاصل ہے کیا یہ معمولی نعمت ہے ؟اَنَا جَلِیْسُ مَنْ ذَکَرَنِیْ؎ حدیثِ قدسی ہے۔ ہر ذاکر کو اسم کے ساتھ حق تعالیٰ کی مجالست یعنی قربِ خاص بھی عطا ہوتا ہے۔ پس اس نعمت کے ہوتے ہوئے کیفیات و غیرہ کی ہوس میں پڑنا غیر مقصود میں مشغول ہونا ہے۔ دو اُصول سالکینِ طریق کو ہر وقت مستحضررکھنا چاہئیں: ۱) کیفیات غیر اختیاری ہیں اور ذکر اختیاری ہے پس اپنے اختیاری اعمال میں لگا رہنا ہمارا کام ہونا چاہیے پھر مولائے کریم جو غیر اختیاری نعمتیں مثلاً کیفیاتِ ذوق و شوق یا اچھے اچھے خواب وغیرہ عطا فرمائیں ان کا شکر بجا لائے اور نہ عطا فرمائیں تو اسی میں خیر سمجھے اور اپنے کو اس کا اہل نہ سمجھے۔چناں چہ بعض لوگوں کو زیادہ حالات اور کیفیات اور اچھے خواب اور کشف وغیرہ سے ایسا عُجب اور کبر پیدا ہوا کہ ہلاک ہوگئے۔ ۲) اسی طرح وساوس کا آنا اور وساوس کا لانا ہے،وساوس کا آنامطلق مضر نہیں بلکہ وساوس سے جو حیرانی اور پریشانی ہوتی ہے اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں درجات بلند ہوتے ہیں۔ عُجب اور کبر کے جراثیم ہلاک ہوتے ہیں۔ البتہ وساوس کو لانا مُضر ہے۔ پس اپنے اختیار سے وساوس کو نہ لائیے اور نہ مشغول ہو، پھر بھی آئیں تو اس طرف التفات نہ ------------------------------