مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
کی تنخواہ علماء سے بھی زیادہ ہے۔ ہمارے یہاں تنخواہ کا معیار ضرورت اور حاجت پر ہے۔ قرآنِ پاک کی صحیح خدمت کا اہتمام رہتا ہے اسی کی برکت سے کبھی مالی ابتلا نہیں ہوتی حالاں کہ تین لاکھ سالانہ کا خرچ ہے۔ ہمارے یہاں حفاظِ کرام کو جہری نماز ہو یا سرّی ہو، خواہ فرض نمازوں کی امامت ہو یا تراویح پڑھانی ہو تجوید اور قواعد کی پوری رعایت رکھنی ہوتی ہے۔ بعض حضرات جہری نمازوں میں تو قراءت کے تمام اُصول کی پابندی کریں گے او رسری نمازوں میں سب اُصول ختم کردیتے ہیں، کیا یہ قواعد صرف جہر کے لیے خاص ہیں؟ اگر یہ قرآنِ پاک کی عظمت کا حق ہے تو پھر ہر حالت میں اس کی رعایت ضروری ہے۔ تراویح میں تو عام ابتلاہے کہ تیز پڑھنے میں تمام قواعد ہضم کرجاتے ہیں۔ میں اس کی ایک مثال دیا کرتا ہوں، وہ یہ کہ کار کے تیز چلانے پر حکومت کی طرف سے انعام مقرر ہو تو کچھ لوگوں نے سُرخ سگنل کو بھی پار کرلیا اور تصادم سے بھی نہ رُکے سب کو گراتے پڑاتے منزلِ مقررہ تک پہنچ گئے اور کچھ لوگ ہر سُرخ سگنل پر اپنی کار کو روک لیا کرتے اور کسی کی جان بھی تیز رفتاری سے نہیں ضایع کی تو آپ ہی بتلائیں کہ انعام کن لوگوں کو ملے گا؟ اور چالان کن لوگوں کا ہوگا؟ انعام تو کُجا ایسے لوگوں کی سزا کا خطرہ ہے جو تیز رفتاری سے تراویح میں اُصول و قواعدِ تجوید کی پروا نہیں کرتے اور مقتدیوں کو خوش کرنے کے لیے خدائے تعالیٰ کو ناراض کرتے ہیں۔ ۸) ارشاد فرمایا کہ جب طبیعت کے موافق حالات پیش ہوں تو شکر سے حق تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور جب طبیعت کے ناموافق حالات پیش آئیں تو صبر سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ پس مؤمن ہر حالت میں نفع میں ہے۔ چت بھی اس کی پٹ بھی اس کی ؎ چوں کہ قبض آید تو در وے بسط بیں تازہ باش و چیں میفگن بر جبیں حضرت رومی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب قبض آوے یعنی طبیعت بے کیف ہو اس حالتِ باطنی کو بھی اپنے لیے مفید سمجھ کر تازہ اور خوش رہے اور پیشانی پر ناگواری کا اثر نہ آنے دے۔