مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
خوشی سے باغ باغ ہوگی۔ اسی طرح طلباء کو نمازیں سنت کے مطابق پڑھنے کی مشق کرانے کے لیے نگران مقرر کیا جائے، اور بہتر یہی ہے کہ ان کاموں کے لیے اساتذہ ہی کو منتخب کیا جائے اور ان کی اس نگرانی کا وظیفہ علاوہ تنخواہ الگ سے دیا جائے۔ اور مدرسے کی آمدنی کو ان ہی ضروری اُمور میں یعنی علم اور عمل کی اصلاح میں زیادہ خرچ کیا جائے۔ خواہ تعمیر معمولی ہو۔ جسمِ مدرسہ میں اوّلاً ضروری باتوں کو مقدم رکھا جائے پھر عمدگئ تعلیم کے بعد مناسب تزیین کی طرف توجہ فرمائی جائے۔ تشریح نمبر 25 :معلمینِ قاعدہ و ناظرہ و حفظ کا مشاہرہ معقول کرنا الخ۔ آج کل اس باب میں بڑی کوتاہی ہے۔ دین کی عظمت کا تقاضا یہی ہے کہ ان حضرات کو اتنی تنخواہ دی جائے کہ جس سے وہ راحت اور سکون سے زندگی گزار سکیں۔ معقول تنخواہ سے پھر کام اچھا ہوتا ہے۔ اور اچھے اساتذہ بھی ملتے ہیں۔ ورنہ سستا اُستاد کا کام بھی ویسا ہی ہوتا ہے۔ حضرتِ اقدس ہردوئی نے فرمایا کہ الحمدللہ! ہمارے یہاں قاعدہ اور حفظ و ناظرہ کے بعض اساتذہ کی تنخواہ بعض علماء سے بھی زیادہ ہے، کیوں کہ ہمارے یہاں تنخواہ کا مدار ضرورت پر ہے نہ کہ قابلیت پر۔ مثلاً: ایک قاعدہ پڑھانے والے کے اہل و عیال کا سات افراد کا خرچ ہے اور عالم کا خرچ مختصر ہے، ابھی صرف بیوی ہے اولاد نہیں، تو آپ ہی فیصلہ کرلیں کہ ضرورت کس کو زیادہ تنخواہ دینے کی ہے؟ تشریح نمبر 27:تقرّر کے وقت نصابِ مدرّسین کے مطابق جانچ کرانا اگرچہ سند تکمیل کی ہو، کیوں کہ بعض وقت صلاحیت حاصل شدہ بے فکری سے کم ہوجاتی ہے۔ حضرتِ اقدس ہردوئی نے ارشاد فرمایا کہ ہمارے یہاں عالموں کی تقرّری پر ان کا قاعدے کا امتحان ضرور ہوتا ہے۔ چناں چہ ایک مرتبہ ایک عالم صاحب کچھ خفا ہوئے، اور کہنے لگے: ہماری سند میں تمام کتابوں کے اندر ہمارے اعلیٰ نمبر آئے ہیں۔ ان سے گزارش کی گئی مگر آپ کی سند میں قاعدے کے امتحان کا ذکر نہیں ہے۔ پھر ایک قاعدہ پڑھنے والے بچے کو بلایا گیا اور اس سے ان کو قاعدے کا سبق سنایا گیا پھر خود ہی کہنے لگے کہ یہ بچہ تو مجھ سے اچھا پڑھتا ہے۔ پھر اُن سے عرض کیا گیا کہ اگر آپ کو اس