مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
چناں چہ حضرتِ اقدس نے یہاں کے بعض دینی اداروں میں سب سے پہلے اچانک طلباء کی قیام گاہ کا معاینہ فرمایا اور ان کے بستر اور دستر خوان کی صفائی کا معاینہ فرمایا اور جہاں کاغذ کے ٹکڑے پڑے تھے فرمایا کے یہ آلۂ علم ہے اس کو اُٹھاکر کہیں رکھ دیں۔ ہر گز ہر گز کاغذات کے ٹکڑے ادھر اُدھر نہ پڑے ہوں۔ اسی طرح فرمایا کہ آج صفائی کا اہتمام نہیں رہا، ہم سے دوسری قوموں نے صفائی کا سبق لے لیا اور ہم نے گندگی کو اپنا شعار بنالیا۔ اور فرمایا کہ ایک بار اچانک کوئی صاحب آئے اور ہم نے اُن کو اپنے بچوں کا دارالاقامہ دکھایا، سب کے بستر قرینے سے لگے ہوئے تھے اور کہیں کوئی کاغذ کا ٹکڑا بھی نہ تھا۔ نہایت اہتمام سے صفائی ستھرائی کا نظم دیکھ کر کہنے لگے کہ کیا آج یہاں کوئی صاحب معاینے کے لیے آنے والے ہیں؟ انہیں بتایا گیا کہ یہاں ہمیشہ ہی ایسی صفائی کا اہتمام رہتا ہے۔ عام ذہن اسی طرح کا بن گیا ہے کہ جب کوئی بڑا معاینے کے لیے آئے تو خوب صفائی ہوگی ورنہ پھر کوئی اہتمام صفائی کانہیں رہتا۔ اس کا بڑا خیال چاہیے۔ طالبِ علمِ دین اور اہلِ علم اور عُلما کے وقار کو ان بے اُصولیوں سے بہت نقصان پہنچا ہے۔ انتظام اور سلیقے سے رہنا انگریزی دان طبقے نے اپنے لیےخاص سمجھا ہوا ہے اور مولوی اور دیندارطبقے کے لیے بدنظمی، بے اُصولی اور گندگی کو لازم سمجھ رکھا ہے۔ ہمارے لیے یہ تازیانۂ عبرت ہے۔ تشریح نمبر19و 20 :ادعیہ اوقاتِ متفرقہ کی نگرانی کا نظم قائم کرنا الخ۔ یعنی جو مسنون دُعائیں مثلاً سوتے وقت اور سوکر اُٹھتے وقت، کھانے سے قبل اور کھانے کے بعد اور دستر خوان اُٹھتے وقت اور سواری پر چڑھتے وقت اور مسجد میں داخل ہونے اور نکلنے کی دُعائیں طلبہ کو یاد کرائی جاتی ہیں ان کو ان کے وقتوں پر عملی طور پر پڑھنے کی نگرانی بھی کرنی چاہیے۔ اور اس پر کوئی نگران مقرر ہو اور اس نگرانی کا وظیفہ بھی مقرر کیا جائے۔ اس طرح پر دینی مدارس کے بچے سنت کی زندگی پر عملی مشق کی تربیت پاجائیں گے۔ اور جہاں بھی رہیں گے ان سنتوں کی عادت بن جائے گی۔ اور زندگی بھر کا یہ صدقۂ جاریہ اساتذہ اور مہتمم اور منتظمین اور معاونین کے نامۂ اعمال میں لکھا جاوے گا، سنتوں کااحیا ہوگا۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رُوحِ مبارک