مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
میں ایسا دل رکھتا ہوں جس کے اندر عشقِ حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت کے جواہرات بھرے ہوئے ہیں۔ کون ہے آسمان کے نیچے وہ صاحبِ دولت جو مجھ سے زیادہ سامانِ دولت رکھتا ہو؟ خلاصہ یہ کہ علماء و طلباء کاہمیشہ اکرام ضروری ہے اور باعثِ سعادت ہے۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جو لوگ علمائے حق کو بُرا بھلا کہتے ہیں ان کی قبروں کو دیکھو کہ ان کے منہ قبلے سے پھیر دیے جاتے ہیں۔ حق تعالیٰ علم اور اہلِ علم کا ادب و اکرام نصیب فرمادیں،آمین۔ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک مرید کی اس شکایت پر کہ یہاں کے مقامی علماء ہمارے ساتھ تعاون نہیں کررہے ہیں، سختی سے ہدایت لکھی کہ خبردار! علماء کی شکایت آیندہ مت لکھنا کہ اس سے وبال سوء خاتمے کا اندیشہ ہے۔ احقر اختر عفی عنہ عرض کرتا ہے کہ حضرت مولانا کے اس گرامی نامہ کو احقر نے خود پڑھا ہے اور نقل بھی کرلیا ہے۔ اور مکتوب الیہ احقر کے ایک سن رسیدہ دوست ہیں جو حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مرید ہیں ؎ از خدا جوئیم توفیقِ ادب بے ادب محروم ماند از فضلِ رب اے خدا !ہم آپ سے ادب کی توفیق چاہتے ہیں،کیوں کہ بے ادب شخص آپ کے فضل سے محروم ہوجاتا ہے۔ حضرت حکیم الاُمت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ارشادات میں احقر نے یہ بھی پڑھا تھا کہ آج کل اسی عالم کا اکرام کیا جاتا ہے جس کی شہرت ہو اور صاحبِ وجاہت ہو،حالاں کہ ہر عالم کا اکرام چاہیے۔ اسی طرح یاد پڑتا ہے کہ عالم کو بھی عالم کا اکرام کرنا چاہیے۔ تشریح نمبر9: طلباء کے علمی و عملی امتیاز پر انعامات تجویز کرنا۔طلباء کے لیے انعامات کی تجویز کی سب سے بڑی حکمت ظاہر ہے کہ اس سے انہیں مزید ہمت و شوق پیدا ہوگا، اور جو طلباء کم نمبر لانے والے ہیں انہیں بھی انعام لینے کا شوق علم و عمل میں آگے بڑھنے کا