مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
کی بے وقعتی یا بے عزتی یا شکایت عوام کے سامنے آئے۔ اس کے متعلق اسی باب کے تشریح نمبر۱ و نمبر۲ کو بغور مطالعہ کیا جاوے تاکہ علم اور اہلِ علم کی عظمت قلب میں پیدا ہو۔اور بار بار ان احادیث کا مذاکرہ ہوتا رہے۔ مزید برآں ایک حدیث ہے جس سے علماء کی کوتاہیوں پر سکوت کا حکم ثابت ہوتا ہے (اور غیبت تو جب عوام مسلمین کی شان میں حرام ہے تو علماء کی شان میں تو نہایت ہی احتیاط چاہیے)۔ ارشاد فرمایا رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جب کسی عالم کی لغزش دیکھو اس کی توبہ کا انتظار کرو (یعنی اس کی توہین اور غیبت مت کرو اور اس کی اشاعت مت کرو)۔ اِذَارَأَ یْتُمْ زَلَّۃَ الْعَالِمِ فَانْتَظِرُوْافَیْئَتَہٗ؎ اور طالبِ علمی کی حالت میں اگر موت آجائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ وہ شہید ہوتا ہے: اِذَا جَاءَ الْمَوْتُ لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَھُوَعَلٰی ھٰذِہِ الْحَالَۃِ مَاتَ وَھُوَ شَہِیْدٌ ؎ (التشرف فی احادیث التصوف) حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ علماء و طلباء کا اکرام وہی کرتا ہے جس کے قلب میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور آخرت کی عظمت ہوتی ہے اور جو انہیں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وارث اور نائب سمجھتا ہے۔ ان کی بے وقعتی کرنے پر صرف ایک ہی حدیث کی وعید کافی ہے کہ ایسے شخص سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رشتہ و تعلق منقطع کرنے کا اعلان فرمایا ہے۔ پھر میدانِ محشر میں معلوم ہوگا جب آپ کی شفاعت سے محرومی ہوگی کہ شفاعت تو تعلق والوں کے لیے ہوگی۔ اگر علمائے کرام یا طلبائے کرام کے حقوق میں کوئی بے ادبی ہوجائے فوراً ان سے معافی مانگ کر ان کو راضی کرلے۔ اور جب عام مؤمنین کے لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اپنے کو مؤمنین کے سامنے متواضع ------------------------------