مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
(جیسے کھانا کھانے سے بھوک کی تکلیف میں سکون ہونا) اس کا ترک بھی ناجائز، اور اگر ظنی ہے (جیسے دوا سے صحت ہونا) تو یہ ترک قوی القلب کے لیے جائز ہے۔ اور اگر تدبیر وہمی محض ہے تو اس کا ترک ماموربہ ہے۔؎ تشریح نمبر5 :تشریح نمبر4میں جو باتیں بیان کی گئیں ان حقائق کے علم ہوجانے کے بعد مشورہ دینے والے اراکین حضرات کو حسب ذیل اُمور کا اہتمام ان کے لیے موجبِ اجر و ثواب اور باعثِ خیر و برکت ہے: ۱) مشورہ دیتے وقت علمائے کرام کا اپنے اوپر احسان تصور کریں کہ انہوں نے ہمیں اس خیر میں حصہ لینے کی سعادت عطا فرمائی۔ ۲) مشورہ دیتے وقت اپنے کو خادم اور علمائے کرام کو مخدوم سمجھیں۔ ۳) اگر ان کے مشورے کے خلاف مہتمم قدم اُٹھائے تو اس صورت کو شرعاً اس کا حق سمجھ کر اس کی اعانت سے گریز نہ کریں، اور اس وقت اپنے اخلاص کا اور اپنے نفس کا امتحان سمجھیں۔ ورنہ اگر اپنے مشورے کے خلاف عمل دیکھ کر دل میں کینہ محسوس کیا اور تعاون سے ہاتھ روک لیا تو دراصل اپنے اس عمل سے کارِ خیر میں مشورہ پیش کرنے اور مشیر بننے کی شرعی صلاحیت سے نااہلیت کا ثبوت پیش کردیا۔ جیسا کہ تشریح نمبر۴میں قرآن و حدیث کی روشنی میں مشورے کی حیثیت کو تحریر کیا گیا۔ مجلسِ شوریٰ کے ہر رُکن کو اس کی نقول ضرور رکھنی چاہیے اور گاہ گاہ اس کا مذاکرہ بھی ہوتا رہے ان شاء اللہ تعالیٰ پھر ناواقفیتِ حدودِ شرعیہ سے جو مہتمم اور اراکینِ شوریٰ میں جھگڑے چل کھڑے ہوتے ہیں سب کا انسداد ہوجاوے گا۔ البتہ اگر یہ مسئلہ انتظامی اُمور کا نہ ہو بلکہ علمی اور شرعی مسائل کا اختلاف ہو تو اہلِ علم اور فتویٰ کے اکابر حضرات سے رُجوع کرلیا جائے۔ اور مہتمم کو بھی موضعِ تہمت سے بچنے کے لیے فوراً اکابر اہلِ علم سے استفتاء کرکے اراکین کو آگاہ کردینا چاہیے۔ تشریح نمبر6 :ایسے اقوال و افعال سے احتیاط رکھنا جس سے طلبائے کرام اور اساتذۂ عظام ------------------------------