مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
مگر جب آپ قوت سے ایک جانب کی رائے کو اپنے قلب میں پختہ کرلیں تو پھر خدائے تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں۔ (خواہ وہ ان کے مشوروں کے خلاف ہو یا موافق ہو) اس آیت کے متعلق چند ضروری فوائد تفسیر ’’بیان القرآن‘‘حضرت حکیم الاُمت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتا ہوں: ۱( مشورہ کرنے کا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے صرف ان اُمور میں حکم ہوا ہے جن کے متعلق وحی نہیں نازل ہوئی، ورنہ بعد وحی کے پھر مشورے کی کوئی گنجایش نہیں۔ ۲) مشورے کی حکمت ان کی دلجوئی بھی ہے اور دوسری حکمتیں بھی ہیں، مثلاً یہ کہ آپ کی اُمت کے لیے یہ عمل سنت قرار پائے۔چناں چہ حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ و رسول کو تو اس مشورے کی حاجت نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو میری اُمت کے لیے ایک رحمت بنایا ہے۔ ۳) اور آیتِ مشورہ کی تفسیر میں یہ جو ہے کہ خواہ ان کے مشورے کے موافق ہو یا مخالف، دلیل اس کی یہ ہے کہ لفظ ’’عزم‘‘ میں کوئی قید نہیں لگائی گئی۔ ۴)اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آج کل اُمورِ انتظامیہ میں رائے اور مشورے کو کثرتِ رائے کے ضابطے سے منوانا اور مسلّط کرنا محض بے اصل ہے۔ اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ ورنہ یہاں عزم میں یہ قید ہوتی کہ بشرطیکہ آپ کا عزم کثرتِ رائے کے خلاف نہ ہو۔ ۵) مشورہ اور عزم کے بعد توکل کا جو حکم ہے اس سے ثابت ہوا کہ تدبیر توکل کے منافی نہیں۔ کیوں کہ مشورہ اور عزم کا داخلِ تدبیر ہونا ظاہر ہے۔ ۶) اور جاننا چاہیے کہ تدبیر کے بعد اعتماد و توکل حق تعالیٰ پر رکھنا ہر مسلمان پر فرضِ عین ہے۔ اور توکل بہ معنیٰ ترکِ تدبیر اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ تدبیر دینی ہے تو اس کا ترک مذموم ہے اور اگر دنیوی تدبیر ہے مگر وہ یقینی عادتاً ہے