مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
ثواب حاصل کرنے کی نیت سے پیش کرے۔ اس نیت کی برکت یہ ہوگی کہ اگر اس کے خلاف عمل ہوا تو رنج نہ ہوگا اور مدرسے کی اعانت و خدمت سے محرومی نہ ہوگی۔ ورنہ اکثر یہی ہوتا ہے کہ جس رُکن کے مشورے کے خلاف عمل مہتمم کرتا ہے وہ رُکن کینہ اور غصے کے سبب مدرسے کی اعانت سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے حدیثِ حضرت بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سامنےرکھیے۔ حضرت بریرہ جب آزاد ہوئیں تو پہلے شوہر حضرت مغیث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے شرعاً انہیں حقِ خلع حاصل ہوا اور انہوں نے اسے استعمال کرلیا اور اپنے شوہر سے خلاصی کا اظہار کردیا۔ حضرت مغیث رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینے کی گلیوں میں روتے پھرتے تھے۔ حضرت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اطلاع دی گئی کہ مغیث اس طرح رو رہے ہیں کہ ان کے آنسو داڑھی سے ٹپک رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بلاکر فرمایا کہ مغیث کو نہ چھوڑو۔ بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ آپ کا حکم ہے یا مشورہ؟ آپ نے ارشاد فرمایا: مشورہ ہے۔ (کیوں کہ شریعت کے قانون سے حضرت بریرہ کو اُن سے الگ ہونے کا اختیار تھا) تو عرض کیا کہ میرا ان کے ساتھ نباہ میرے لیے ناقابلِ تحمل ہے۔؎اس حدیث سے حکم اور مشورے کا فرق صاف ظاہر ہے۔ اب اس روایت سے مشورہ دینے والے اراکینِ مجلسِ شوریٰ کو غور سے یہ سبق حاصل کرلینا چاہیے کہ مشورے کا رُکن ہونا حکومت حاصل ہونے کے مترادف نہیں، بلکہ علمائے کرام کے خادم بننے اور مشورہ عرض کرنے کی سعادت کے شرف پر مسرور اور شکر گزار ہونا چاہیے،اور اگر مہتمم اراکین کے مشورے پر عمل نہ کرے تو حُسنِ ظن رکھنا چاہیے کہ وہ عالمِ دین ہیں، ان کے قلب میں خدائے تعالیٰ نے جو بات ڈالی ہے وہ ہمارے مشوروں سے افضل اور بہتر ہے۔ سورۂ آل عمران وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ؎ میں حق تعالیٰ نے اسی مسئلے کو بیان فرمایا ہے کہ اے نبی!آپ اپنے اصحاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) سے مشورہ تو لے لیں (کہ اس میں ان کی دلجوئی بھی ہے) ------------------------------