مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
پُرانی اور معمولی ٹوٹی ہوئی چٹائیاں بچھی ہوئی ہیں۔ دل کو سخت صدمہ ہوا۔مہتمم حضرات سے گزارش کی گئی اور توجہ دلائی گئی۔ انہیں بھی اس کوتاہی کا احساس ہوا۔ یہ عجیب بات ہے کہ مقدمات کے لیے تو اس قدر اہتمام اور مقصودِ اصلی کے ساتھ یہ بے پروائی؟ صَرف ونحو تو قرآنِ پاک ہی کے سمجھنے کے لیے پڑھاتے ہیں تو آلۂ علوم کو یہ درجہ و رُتبہ دیا جاوے اور اصل مقصودقرآنِ پاک اور اس کے طالبِ علموں کے ساتھ ایسی بے وقعتی اور ایسی کوتاہی! بڑی عبرت کی بات ہے۔ پھر فرمایا کہ الحمدللہ! ہمارے یہاں ہردوئی میں بَڑھیا اور عمدہ دریاں پہلے حفظِ قرآنِ پاک کی درس گاہوں میں بچھائی جاتی ہیں پھر جب وہاں سے پُرانی ہوکر نکلتی ہیں تو ہم ان کو صَرف ونحو اور کافیہ والوں کی درس گاہ میں بچھاتے ہیں۔ اور صاحبو! خوب غور سے سن لو کہ قرآن والوں کو اہل اللہ حدیثِ پاک میں فرمایا ہےاَھْلُ الْقُرْاٰنِ اَھْلُ اللہِ وَ خَاصَّتُہٗ ؎ (یہ حدیث ہے۔) تشریح نمبر3:اراکین و منتظمین کو چاہیے کہ دوسرے معاونین اور بالخصوص اساتذۂ کرام کے ساتھ حسنِ ظن رکھیں۔ بدگمانی سے بڑے فتنے پیدا ہوتے ہیں۔ اسی لیے شریعت نے بدگمانی کو حرام قرار دیا ہے۔ بدگمانی سے بچنے کے لیے اکابر کا یہ ملفوظ یاد رکھے کہ ہر نیک گمان پر بدون دلیل ثواب ملے گا، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ظُنُّوْا بِالْمُؤْمِنِیْنَ خَیْرًا؎ مؤمنین کے ساتھ نیک گمان رکھو۔اور ہر بدگمانی پر قیامت کے دن دلیل پیش کرنا پڑے گی تو خواہ مخواہ کیوں مؤاخذے کی آفت خریدے۔ اور حسنِ ظن سے محبت اور تعلقات میں مضبوطی رہتی ہے جس سے اجتماعی کاموں میں بڑی مد دملتی ہے۔ اور بدگمانی سے افتراق اور اختلاف پیدا ہوتا ہے جس سے اجتماعی طاقت پاش پاش ہوجاتی ہے اور ناقابلِ تلافی نقصان بدون کسی حقیقت کے محض بدگمانی سے دین کو پہنچ جاتا ہے۔ اور یہ تمام وبال بدگمانی کرنے والے کی گردن پر ہوگا۔ ------------------------------