مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
فائدہ:لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس نوافل اور ذکر سب چھوڑ کر درس وتدریس ہی میں لگ جاوے۔ مطلب یہ ہے کہ علمی خدمات میں زیادہ وقت صَرف کرے کہ یہ سب عبادتوں سے بڑھ کر عبادت ہے۔ لیکن خلوت میں کچھ اللہ اللہ نہ کرے گا تو علم کا فیض بھی جاری نہ ہوگا اور اس کے علم میں نور بھی نہ ہوگا۔ جس طرح حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی کنویں سے مسلسل پانی نکالو گے تو پھر پانی کے بجائے کیچڑ آنے لگے گی،اور جو ماں بچوں کو مسلسل دودھ پلائے گی اس کے دودھ میں خون آنے لگے گا۔ پس جلوت میں افادۂ نور جس طرح ضروری ہے خلوت میں استفادۂ نور ذکرِ حق سے بھی ضروری ہے۔ یہ مثال مولانا نے اُس موقع پر بیان فرمائی جب مثنوی کے دفترِ ششم کے اشعار کہنا بند فرمادیے تھے اور حضرت حسام الدین رحمۃ اللہ علیہ مولانا کے خلیفۂ خاص بار بار فرمایش کرتے رہے ۔ تو یہ حکمت خاموشی کی بیان فرمائی ؎ مدتے در مثنوی تاخیر شد مہلتے بایست تا خوں شیر شد اے حسام الدین در چہ بند کن سخت خاک آلود می آید سخن ترجمہ نمبر1 و نمبر2 :کچھ مدت مثنوی میں تاخیر ہوگئی اور ہونی چاہیے تاکہ جان کے اندر جو علم کے پستان ہیں ان کے اندر خون کا استحالہ شِیر سے ہوجائے یعنی خون کا دودھ بننے کے لیے کچھ وقفہ ضروری ہے۔ اے حسام الدین!اب زیادہ فرمایش مثنوی کے لیے مت کرو کیوں کہ بدون آمد اور الہام تکلّف سے جو کہہ رہا ہوں اس میں وہ نور غیبی عالمِ قدس کا نہیں محسوس ہورہا ہے۔ پس کنویں کا منہ کچھ دن کے لیے بند کردو تاکہ چشمۂ باطن سے صاف پانی پھر جمع ہوجاوے، کیوں کہ مسلسل پانی نکالنے سے خاک آلود پانی آرہا ہے۔پھر کچھ دن مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ خاموشی سے خلوت میں حق تعالیٰ کے ساتھ ذکر و فکر میں مشغول رہے اور جب باطن میں خوب انوارِ ذکر جمع ہوگئے تو ارشاد فرمایا ؎