مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
۲) اُستاد کی روک ٹوک اگر پڑھنے میں ہو تو اس کو بُرا نہ سمجھے اور نہ چہرے پر شکن لائے نہ ملال ظاہر کرے، اس لیے کہ اس سے اُستاد کے قلب میں انقباض پیدا ہوجائے گا اور دروازہ نفع کا بند ہوجائے گا،کیوں کہ یہ موقوف ہے انشراحِ دل اور مناسبت پر، اور صورتِ مذکورہ میں دونوں باتیں نہیں۔(اسی طرح مرید کو اپنے مرشد کے معاملے میں سمجھنا چاہیے) ۳) بہت بڑا قاعدہ اور جلد نفع کی کنجی یہ ہے کہ جس سے نفع حاصل کرنا ہو اس کے سامنے اپنے کو مٹادے اور فنا کردے۔ اپنی رائے، تدبیر کو بالکل دخل نہ دے پھر دیکھے کیسا نفع حاصل ہوتا ہے ؎ تو مباش اصلًا کمال ایں ست و بس رو درو گم شو وصال ایں ست و بس جب تک فنائے رائے کی ہمت نہ پائے کیوں آپ اہلِ عشق کی محفل میں آئے ۴) طالبِ علم کو چاہیے کہ اگر اساتذہ کی بے ادبی یا نافرمانی یا ایذا رسانی ہوجائے فوراً نہایت نیاز و عجز سے معافی چاہے اور ندامت ظاہر کرے۔ ۵) بچپن کے اُستاد کو بڑے ہونے پر بھی استاد سمجھنا چاہیے اور ان کا ادب و لحاظ اور بہت خدمت کرنی چاہیے۔(حضرت حکیم الاُمت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ ادب کا حق پہلے والدین کا ہے پھر اُستادِ ظاہری کا پھر پیر کا۔) ۶) طلباء کو چاہیے کہ اپنے اساتذہ اور بڑوں کے سامنے ادب سے رہیں، نہ زیادہ ہنسیں نہ زیادہ بولیں نہ ادھر اُدھر دیکھیں۔ ایسا رہے جیسے وہ شخص رہتا ہے جس کے سر پر پرندہ بیٹھ جاتا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم ایسے ہی رہتے تھے۔ ۷) اگر اساتذۂ کرام سے یا کسی بڑے سے کوئی بات خلافِ مزاج پیش آجائے تو یہ سمجھ کر کہ ان سے مجھے دینی نفع بہت ہوا ہے معاف کرکے دل صاف رکھے، بلکہ ان کے