مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
وہ کتا جو لیلیٰ کی گلی میں مقیم ہے میں اس کی خاکپا کو شیر انِ عظیم سے بہتر سمجھتا ہوں ؎ آں سگے کو باشد اندر کوئے او من بہ شیراں کے دہم یک موئے او وہ کُتّا جو لیلیٰ کی گلی میں رہتا ہے میں شیروں کو بھی اس کا ایک بال نہیں دے سکتا ہوں۔ صاحبو! دنیا کی مردار محبت میں تو یہ حال ہوجائے پھر خالقِ لیلیٰ یعنی مولیٰ کی محبت میں کیا ہونا چاہیے! آہ مولانا اسی کو فرماتے ہیں ؎ عشقِ مولیٰ کے کم از لیلیٰ بُود گوئے گشتن بہرِ او اولیٰ بُود حضرت رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اے دوستو! مولیٰ کی محبت لیلیٰ سے کب کم ہوسکتی ہے کہ لیلیٰ تو اس سرچشمۂ جمال کی ایک شعاعِ انعکاسی تھی اور پھر اس آفتابِ حقیقی اور ایک شعاع میں کیا نسبت اور وہ بھی عارضی۔ آج تک کتنی لیلیٰ قبروں میں مر کر سڑکر کیڑوں کی خوراک بن چکی ہیں ؎ چراغ مردہ کجا شمع آفتاب کجا اُن کے عارض کو لغت میں دیکھو کہیں مطلب نہ عارضی نکلے (اختر) پس حق تعالیٰ کی محبت میں سرمست ہونا اور ان کا مُطیع ہوناچاہیے کہ دونوں جہاں میں ان کے عاشقین یعنی انبیاء اور اولیاء کیسے سرخرو اور عزت میں افلاک سے آگے ہیں۔ مساجد حق تعالیٰ کی بارگاہ ہیں۔ عاشقوں سے پوچھو کہ مساجد کے درو دیوار انہیں کتنے پیارے ہیں اور مساجد کے خدّام کی کیا محبت اور عزت ان کے دلوں میں ہے ؎ تم اس عاشق کے ذوق ِ بندگی کو پوچھتے کیا ہو جسے طاقِ حرم بھی ابروئے خمدار ہوجائے