مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
الْبِدَعِ وَاَشَدِّ الْکَرَاھَۃِ لَاسِیَّمَا وَقَدْ یَقْتَدِیْ بِھِمْ بَعْضُ الْجَھَلَۃِ مِنَ الْقُرَّاءِ؎ تشریح نمبر2:اذان اور اقامت کو حقیر خدمت سمجھنا دراصل علمِ دین سے ناواقف ہونے کے سبب سے ہے، اور اہلِ محلّہ اور اراکینِ انتظامیہ اسی سبب سے مؤذنوں کی عزت نہیں کرتے، بلکہ صدر اور سیکریٹری تو مؤذن سے یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ ان کے بچوں کو بھی گود میں لے کر ہوا کھلادیا کرے اور اُن کے گھر کی سبزی، گوشت بھی لادیا کرے۔ حالاں کہ مؤذن خدائے تعالیٰ کے گھر کا خادمِ خاص ہے۔ خدائے تعالیٰ کے حکمِ نماز کا منادی ہے۔ وزیراعظم کے گھر کے ملازم اور خادم کو دیکھ کر تو اس کا بڑا احترام کیا جاوے گا کیوں کہ شاید اس سےکوئی سفارش اور دنیا کا کام چل جاوے اور اگر کوئی کام نہیں تو بھی اس کے ساتھ اہانت اور اذیت کا معاملہ تو ہر گز ہر گز نہیں کریں گے اس لیے کہ یہ وزیراعظم کا آدمی ہے اگر اس کو پتا چل گیا تو پھر خیر نہیں۔ شہر کے کلکٹر کے باورچی اور بھنگی سے بھی ڈرتے ہیں تو بات کیا ہے؟ یہاں ان کے اختیارات پر یقین ہے اور ان کی عظمت دلوں میں ہے۔ بھائیو! اگر حق تعالیٰ شانٗہ کی اسی طرح عظمت دلوں میں آجائے تو ان کے گھر کے خدام کا بھی احترام اور اکرام پیدا ہو، اور ان کی بھی محبت معلوم ہو۔ مجنون کی حکایت مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی ہے کہ لیلیٰ کی گلی کے کُتّے کا بھی احترام کرتا تھا اور کہتا تھا ؎ ایں طلسم بستۂ مولٰست من پاسباں کوچۂ لیلٰست من یہ کتا میری لیلیٰ کی گلی کا پاسبان ہے اس کتے کی شکل ہمارے مولیٰ کی بنائی ہوئی ہے ۔ اور کہتا تھا کہ ؎ آں سگے کو گشت در کو یش مقیم خاک پایش بہ ز شیرانِ عظیم ------------------------------