مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
جو منکرات کی مکھیاںگُھس رہی ہیں ان رُوحانی مکھیوں کے ساتھ ہمارا کیا معاملہ ہے؟ یہاں سب لوگ دوستی کا حق سمجھ کر خاموش رہتے ہیں۔ وہاں تو دوستی کا حق یہ تھا اور یہاں دوستی کا حق یہ ہے کہ بچہ دوزخ میں جائے مگر انگریزی بال اور جاندار تصویر سے نہ بچایا جائے۔ سینما اور تمام بُرائیوں سے روک ٹوک نہ ہو ؎ کیسا یہ انقلاب ہے دیکھ کے دل کباب ہے کہتے ہیں اب ثواب ہے سود اور قمار میں احقر کی ایک جگہ دعوت تھی۔ بس ایک صاحب نے چالاکی سے فوٹو کھینچ لیا۔ اچانک روشنی سے میں سمجھ گیا۔ پہلے تو انہوں نے دھوکا دینا چاہا کہ یہ روشنی جو ہوئی ہے کیمرے کی نہ تھی، بجلی کا بلب فیوز ہوا یا بجلی کا تار خراب ہوگیا۔ میں نے کہا کہ کیمرا مجھے دیجیے۔ میں نے اس پر قبضہ کیااور کہا کہ پوری ریل اس کی میرے سامنے ضایع کرو ورنہ میں اس گھر میں کبھی قدم نہ رکھوں گا اور نہ اس وقت کھانا کھاؤں گا ابھی واپس جاتا ہوں۔ بس سب کا مزاج ٹھیک ہوگیا۔ بتیس روپے کی تمام ریل تباہ کی گئی۔ زندگی بھر کے لیے سبق مل گیا۔ آج روک ٹوک کی کمی سے بُرائیاں سیلاب کی طرح پھیلی جارہی ہیں۔ ہم لوگوں میں منکرات پر نکیر اور روک ٹوک کی اہمیت باقی نہ رہی۔ اپنی اولاد کو ایک مکھی جو چائے کی پیالی میں پڑگئی نگلنے نہ دیں گے لیکن گناہوں کے رُوحانی سانپ اور بچھو ان کے پیٹ میں داخل ہوجائیں سب گوارا ہے۔ میرے دوستو! اسبابِ رضا اختیار کیجیے، اور وہ حق تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل ہے۔اور اسبابِ رضا کی ضد سے بھی بچیے، اور وہ نواہی یعنی معاصی سے بچنا ہے۔ پھر دیکھیے کیا انعامات عطا ہوتے ہیں۔ حضرت خواجہ صاحب رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ تجھ کو جو چلنا طریقِ عشق میں دشوار ہے تو ہی ہمت ہار ہے ہاں تو ہی ہمت ہار ہے ہر قدم پر تو جو ر ہرو کھا رہا ہے ٹھوکریں لنگ خود تجھ میں ہے ورنہ راستہ ہموار ہے